چین کی باتیں 

 اس وقت چین ہر لحاظ سے سپرپاور کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہے اور روس کے ساتھ مل کر اس نے امریکہ کودیوار سے لگا لیا ہے اس وقت تھا کہ روس اور چین میں اختلافات تھے جس کا فائدہ امریکہ نے اٹھایا اورسوویت یونین کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی تاہم اب ایک بار پھر روس اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی تگ ودوڑ میں ہے جہاں تک چین کی بات ہے تو اس کی ترقی میں ماضی کی چینی قیادت کا بھرپور ہاتھ ہے‘چین میں کمیونسٹ انقلاب کے نتیجے میں 1949ء میں ماوزے تنگ کی زیرقیادت جو حکومت برسر اقتدار آئی اسکا ایک اہم فرد چو این لائی بھی تھا اور یہ ماؤزے تنگ کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں چو این لائی کی شکل میں ایک ایسا ہمراہی ملا تھا کہ جو ان کے نظریات کیساتھ نہایت مخلص بھی تھا اور ایک اعلیٰ درجے کا منتظم بھی‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ غریب پرور بھی تھا‘ اگر ماؤزے تنگ کو چواین لائی جیسے فرد کا ساتھ نہ ہوتا تو وہ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں شاید کامیاب نہ ہوتے‘چین کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ان دونوں کی جوڑی نے انقلاب چین کے بعد تقریباً دوعشروں تک بلاشرکت غیرے راج کیا اور اپنی حکمت عملی سے ان مغربی قوتوں کی سازشوں سے اپنے ملک کو بچا کے رکھا کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ چین اپنے پاؤں پر کھڑا ہو‘ یہ دونوں جب یکے بعد دیگرے اس دنیا سے رخصت ہوئے تو وہ اپنے ملک کی بنیادیں اس قدر مضبوط کرچکے تھے کہ اس پر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کی جاسکتی تھی‘چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ اور ماؤزے تنگ کے ادوار کے درمیانی عرصے میں چین کو شی ڈینگ کی شکل میں ایک اور ایسا رہنما میسر آیا تھا کہ جس نے کمال مہارت سے چین کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑاکیا‘ شی ڈینگ نے محسوس کیا کہ وقت آگیا ہے کہ چین کے بنیادی کمیونسٹ فلسفے پر اثرانداز ہوئے بغیر اگر چین مغربی ممالک کی معیشت کے وہ پہلو بھی اپنالے کہ جن سے ایک عام انسان کی معاشی حالت مزید بہتر ہوسکتی ہے چنانچہ شی ڈینگ نے چین کے دروازے کے کواڑ دھیرے دھیرے کھولے‘1980ء میں ہی چین کی قیادت نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ 2014ء تک مغربی ممالک یا کسی بھی ملک سے غیر ضروری پنگا نہیں لیں گے اور اپنی تمام تر انرجی صرف اور صرف چین کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے پر صرف کریں گے اور سائنس اور تعلیم کو فروغ دیں گے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس دوران امریکیوں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ چین کو مشتعل کرکے اسے اس کے حواری ممالک کیساتھ تنازعات میں الجھا کر اس کی توجہ  ترقیاتی پروگراموں سے ہٹائے اور اس کی انرجی کو ضائع کرے پر چینی قیادت نے امریکی چالوں کو ناکام کیا‘ اس وقت شی جن پنگ کی قیادت میں چین دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے‘ قابلیت‘ محنت‘ عوامی مقبولیت اور غریب پروری کیلئے وہ اگر ماؤزے تنگ چو این لائی اور شی ڈینگ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں جہاں تک اختیارات کی بات ہے غالباً ان کے ہاتھ میں جو اختیارات ہیں وہ ماؤزے تنگ کے پاس بھی نہ تھے‘ان کے پاس فوجی کمانڈر انچیف سے لیکر ملک کی سربراہی تک تمام عہدے اور اختیارات ہیں‘چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سات مغربی اقدار کو اپنے لئے خطرناک قراردیا ہے اور یہ سات چیزیں یہ ہیں‘ آئینی جمہوریت‘ یونیورسل ویلیوز‘سول سوسائٹی‘نیولبرل ازم‘ میڈیا کی خود مختاری‘ ماضی پر تنقید اور چینی طرز کے سوشلزم پر سوال اٹھانا‘ ان موضوعات پر میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بحث نہیں ہوسکتی‘ اس وقت چین ترقی اور عالمی اثر و رسوخ کے جس مقام پر ہے اس میں چینی قیادت کی دانشمندانہ پالیسیوں کا اہم کردار ہے۔