معاملے کی تہہ تک پہنچنا اور اسے گفت و شنید سے سلجھانا ہی دانشمندی ہے۔گوادر بندرگاہ اس وقت نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کی ترقی کا زینہ ہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں پسماندگی اور محرومی کے خاتمے کو اولین ترجیح دی جائے۔ماضی میں اس حوالے سے جو کوتاہی برتی گئی ہے اس کا ازالہ بھی ضروری ہے۔گوادر اس وقت عالمی توجہ کا مرکز ہے وہاں جو بندرگاہ بن رہی ہے اس پرہمارے دشمنوں کی نظر ہے اگر تو وہ منصوبے کے مطابق بن جائے تو معاشی طور پر وطن عزیز کے وارے نیارے ہو سکتے ہیں اس بندرگاہ سے جس قسم کے بھی مالی فوائد حاصل ہونے ہیں ان پر پہلا حق اس علاقے کے مقامی لوگوں کا ہے اگر یہ حق انہیں نہ دیا گیا اور اس میں کسی نے ڈنڈی مارنے کی کوشش کی تو احتجاجوں اور مظاہروں کی صورت میں منصوبہ التوا کا شکار ہو گا اور یہی اس ملک کے دشمن چاہتے بھی ہیں۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم ذکر کریں گے چند دیگر اہم امور کا۔سری لنکا نے معاشی بحران ختم کرنے کیلئے اپنی فوج کو نصف کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس پر یقینا بھارت اور اس جیسے کئی اور سری لنکا کے دشمن ممالک نے بغلیں بجائی ہوں گی کسی بھی ملک کی سلامتی اور بقا کیلے اس کی ایک مضبوط فوج کا قیام ضروری ہوتا ہے۔ سری لنکا جو چین کے زیادہ قریب ہے اور یہاں پر چین نے بھاری سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے عارضی مشکلات کا شکار ہے اور جلد ہی یہاں پر معاشی استحکام بھی آسکتا ہے تاہم ایسے میں عجلت اور جلد بازی میں فوج کو نقصان پہنچانا خود سری لنکا کے مفاد میں نہیں۔بدترین معاشی حالات کا صرف
سری لنکا ہی شکار نہیں، بہت سے دیگر ممالک بھی معاشی کساد بازاری کا شکار ہیں تاہم ان میں سے کسی نے اپنے فوج کو متاثر نہیں ہونے دیا۔اب تذکرہ کرتے ہیں امدادی تنظیم کیئر کی طرف سے بریکنگ دی سائیلنس کے عنوان سے مرتب کردہ ایک فہرست کا جس میں میں زیمبیا، چاڈ، برونڈی، زمبابوے، مالی، کیمرون اور نائجر شامل ہیں اور حیرت انگیز طور پربین الاقوامی میڈیا میں بر اعظم افریقہ کے بحرانوں کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ان افریقی ممالک کے عوام بھوک، خانہ جنگی اور غربت کا شکار ہیں جبکہ بچوں میں اموات کی شرح بھی زیادہ ہے لیکن دنیا کو اس کی خبر تک نہیں ملتی۔ اس حقیقت کو چند اعداد و شمار سے مزید واضح کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر بیجنگ اولمپکس کے آغاز کے بارے میں آن لائن میڈیا پر تقریبا دو لاکھ پچاسی ہزار مضامین شائع ہوئے۔ اسی طرح اداکار جونی ڈیپ اور اداکارہ امبر ہرڈ کے درمیان قانونی جنگ کے تناظر میں تقریبا دو لاکھ سترہ ہزار مضامین لکھے گئے۔اسی دوران انگولا کی چالیس سالہ تاریخ میں خشک سالی کا بدترین بحران پیدا ہوا اور اس کے بارے میں
صرف اٹھارہ سو آرٹیکل شائع ہوئے۔ اس ملک میں تقریبا چالیس لاکھ افراد بھوک اور پانچ سال سے کم عمر کے ایک لاکھ سے زائد بچے غذائیت کی کمی شکار ہیں۔2021 میں امدادی تنظیم کیئر نے فراموش کردہ انسانی بحرانوں کی فہرست میں یوکرین کو دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔ مشرقی یوکرین میں تنازعے کا آغاز 2014 میں ہوا تھا لیکن یہ بین الاقوامی سطح پر کوئی خاص توجہ حاصل نہیں کر سکا تھا۔ یہ صورتحال فروری 2022 میں روسی حملے کے ساتھ ہی یکدم تبدیل ہو گئی۔کیئر جرمنی کے سیکرٹری جنرل کارل اوٹو زینٹل کے مطابق اب یوکرین تنازعے سے متعلق بیس لاکھ سے زائد آن لائن مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ اب یہ دنیا میں سب سے زیادہ میڈیا کوریج والا بحران بن چکا ہے۔جن ممالک کو میڈیا پر نظرانداز کیا جا رہا ہے، ان میں وسطی افریقی جمہوریہ تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس ملک کے تقریبا ًتیس لاکھ افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے لیکن گزشتہ چھ برسوں سے اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔رواں برس چھٹے نمبر پر موجود ملک برونڈی بھی اس سالانہ فہرست میں اوپر نیچے لیکن مسلسل موجود رہتا ہے۔ اسے دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور اس ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں سے نصف سے زائد غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔تاہم بدقسمتی سے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس وقت یوکرائن پر مرکوز ہے اور براعظم افریقہ جسے بحرانوں کی سرزمین کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا مکمل طور پر نظر انداز ہے اورافریقی عوام کی مشکلات اور مسائل پر پردہ پڑا ہوا ہے۔