بند گلی میں خود کلا می

میرے بزر گوں اور چا ہنے والوں نے مجھے حالات حا ضرہ پر لکھنے سے منع کیا ہے تا ہم کبھی کبھا ر وطن کی مٹی مجھے مجبور کر تی ہے اور مجبوری میں اس شجر ممنو عہ کو ہا تھ لگا نا بلکہ سچی بات یہ ہے کہ منہ لگانا پڑ تا ہے مو جو دہ حا لات میں وطن عزیز کی سیا ست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور میں آج بزر گوں کی تما م نصیحتوں کو بھلا کر بند گلی میں خود کلا می یعنی مو نو لا گ (Monologue) کرنے لگا ہوں میں اپنے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ ایسے حا لات میں مختلف ملکوں کے اندر مختلف تجربات ہوئے ہیں۔یعنی دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا جو مشکل حالات سے نہ گزرا ہوگا اور جہاں انہوں نے بروقت اور مناسب فیصلوں سے نہ صرف اس مشکل دور کا خاتمہ کیا بلکہ اس کے بعد ایسی خوشحالی اور ترقی کا پہیہ تیزی سے چلا کہ لوگ ان ممالک کی مشکلات اور مصائب کو بھول کر ا سکی ترقی اورخوشحالی کی مثالیں دینے لگے۔جاپان دوسری جنگ عظیم کے بعد جس حالت سے دوچار ہوا تھا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ملک ایک بار پھر دنیا کی مضبوط ترین معیشت بن جائے گا اور ایک بار پھر یہ ملک ترقی اور خوشحالی کا نمونہ ہوگا۔ ہماری حالت تو بہت اچھی ہے ہمارے پاس وسال کی فراوانی اب بھی ہے، شہر اور گلیاں آباد ہیں اور چہل پہل ہے۔ جاپان میں تو ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی، جوہری حملے کے بعد وہاں پر سانس لینا دوبھر ہوگیا تھا۔ کارخانے اور فیکٹریاں ملیا میٹ ہوگئی تھیں۔ ایسے حالات میں جس قیادت نے ان مشکلات کا حل ڈھونڈا اور اس مشکل مرحلے سے ملک کو نکلنے میں مدد دی یقینا  انہوں نے ایک مشکل ترین مرحلہ طے کیااور طویل کوششوں کے بعد ہی آسانیاں سامنے آنے لگیں۔ایسے مراحل جب کسی بھی قوم کو درپیش ہوتے ہیں تو پھر یہاں پر آپس کے اختلافات اور فاصلوں کو ختم کیا جاتا ہے اور ایک ساتھ بیٹھ کر مسائل کاحل ڈھونڈا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ مل بیٹھ کر آپس میں بیٹھنے اور قومی اہمیت کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈالنے کی ہے۔ماضی میں ملک کو اس سے بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم اس وقت سیاسی قائدین آپس میں کبھی بھی ایسے ناطے نہیں توڑتے تھے جس طرح کہ اس وقت ہورہا ہے بلکہ کسی نہ کسی فورم پر وہ اکھٹے بیٹھ بھی جاتے اور مشورے بھی کرتے۔ ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ ماضی میں بھی چلتا تھا تاہم لطیف انداز میں ایک دوسرے پرتنقید کی جاتی، کسی جماعت کے کارکن دوسری جماعت کے لیڈر کی اسی طرح عزت و احترام کرتے تھے جس طرح اپنے رہنما کی۔ اگر اس طرح کے روئیے ایک بار پھر ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن جائیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل دیکھتے ہی دیکھتے حل ہوسکتے ہیں۔