یونیورسٹی احتجاج‘ طوالت مفید نہیں 

یونیورسٹی کیمپس میں ملازمین کے احتجاج کی تاریخ مختصر نہیں بلکہ1953ء میں جامعہ پشاور  کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد مختلف مراحل سے گزر کر موجودہ احتجاجی کیمپ تک آ پہنچی ہے اس میں طلبہ تنظیموں کا حصہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کہنے کی بات یہ ہے کہ ملازمین ہوں یا طلباء ان کا احتجاج چاہے جتنا بھی طویل اور شور شرابے والا کیوں نہ ہو بالآخر  مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوگا‘ مانا کہ جامعہ پشاور کے ماضی قریب میں دو وائس چانسلر صاحبان اپنے مقررہ وقت سے پہلے اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہوگئے ہیں لیکن ملازمین یا طلباء کے احتجاج یا مطالبے پر نہیں بلکہ دوسری وجوہات نے چانسلر کو ایسا کرنے پر آمادہ کیا تھا میرے نزدیک تو اگر اپنے اور دوسروں کے حقوق یکساں طور پر نظر آئیں اور بندہ اس پر پختہ یقین رکھے تو مسائل اور مشکلات بہت ہی کم پیدا ہوں گی۔مجھے یاد ہے کہ جب عزیز چاچا درجہ چہارم کے بلاشرکت غیرے صدر ہوا کرتا تھا تو ایک مرتبہ احتجاجی ریلی کی اسلامیہ کالج تک گھوم پھر کر قیادت کے دوران راستے میں کئی بار دیوار پر کھڑے ہو کر اس وقت کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کو للکارتا رہا۔ اسلامیہ کالج اس وقت پشاور یونیورسٹی کا کالج تھا جہاں تک مجھے معلوم ہے تو جس ڈائریکٹر ایڈمن کو کلاس فور کے مفادات کا مخالف سمجھا گیا تھا حقیقت اس کے برعکس تھی بلکہ یہاں تک کہ افسر موصوف کے بہت لوگوں پر احسانات تھے۔ مطلب یہ کہ حالیہ احتجاج میں بھی دوسروں کے حقوق کو بھی مدنظر رکھنا لازمی ہوگا ورنہ انارکی پھیلے گی اور بداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ مذاکرات یعنی مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈنا اور جذباتیت پر افہام و تفہیم اور تدبر کے احساس کو حاوی رکھنے میں سب کی بھلائی ہے یہ جو سیاسی لوگ آکر یونیورسٹی ملازمین کے احتجاجی سٹیج پر تقاریر کرکے یکجہی کے اظہار کیساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کو للکارتے اور حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں ان تمام پارٹیوں کے اقتدار میں بھی یونیورسٹی ملازمین نے احتجاج کیا،کام کاج بند رہا،سڑکوں پر نکل آئے بلکہ یہاں تک کہ پولیس کی کاروائی سے بھی دوچار رہے مگر اس وقت دکھاوے کے اظہار یکجہتی کیلئے ملازمین کے پنڈال کا رخ وہ سیاسی لوگ کیا کرتے رہے جو اقتدار کی باری کے منتظر تھے۔ یونیورسٹی اساتذہ اور جذباتی کلاس تھری اور کلاس فور بلکہ اس مرتبہ تو سینی ٹیشن سٹاف بھی جذباتیت میں آگے نکل گیا لہٰذا تمام تر کو چاہئے کہ حقائق سے روگردانی نہ کریں یعنی گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری تالہ بندی میں طلباء کے نہایت قیمتی بلکہ مہنگے ترین وقت کے ضیاع کیساتھ ساتھ باہر سے آنیوالے لوگوں کو جن مشکلات، مایوسی بلکہ نقصانات کا سامنا ہے اسے یکسر نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ اگرچہ یہ حکومتی بڑوں اور پھر یونین کی سیاست کرنیوالے دوسری جامعات کے ملازمین نمائندوں کی ذمہ داری تھی کہ آگے آکر کوئی درمیانی راستہ نکال لیتے مگر کیا کریں کہ وہ آکر سٹیج  پرکھڑے ہو کر جذبات اُبھارنے اور للکارنے کی عادت اور روایت کو تو دہراتے ہیں لیکن ان تلخ حقائق اور وجوہات کو نظر انداز کیا جاتا ہے  جن کے ہاتھوں یونیورسٹیاں بلکہ پورا تعلیمی نظام کسمپرسی اور بربادی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔یہ بات کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جامعہ پشاور کے ملازمین جن مطالبات منوانے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں وہ پورے ہونے کے بعد اطمینان سے بیٹھ کر آئندہ احتجاج نہیں کرینگے؟ دراصل بڑی وجہ پیسے کی کمی یا عدم دستیابی ہے اب اگر حکومت یونیورسٹی کو چلانا ضروری نہیں سمجھتی تو یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہئے کہ کوئی دوسرا بندوبست کرلیں یا میرے خیال میں یونیورسٹی کا خزانہ تو حکومتی خزانے کی طرح بالکل کنگال بھی نہیں ہوگا یعنی اتنے پیسے تو ہونگے کہ ملازمین کے آٹھ مہینے کے بقایا جات کی ادائیگی ہو سکے یا مذکورہ اضافے کو کم از کم بیسک پے میں شامل کرکے مارچ کے مہینے سے ادائیگی کا آغاز ہو جائے اور باقیماندہ آٹھ مہینے کے بقایا جات آئندہ بجٹ سے قبل دو اقساط میں ادا ہوں، اس طرح دوسرے چھوٹے موٹے مسائل کا حل بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نکل سکتا ہے یہ ضروری نہیں کہ گو وی سی گو کے مطالبے پر لازماً عملدرآمد ہو یا احتجاجی اس مطالبے سے پیچھے نہ ہٹ جائیں۔