جامعہ کا قضیہ‘ انانیت کی بھینٹ

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ مادر علمی انانیت یا بہ الفاظ مروجہ ”میں نہ مانوں“ کی بھینٹ چڑھ گئی ہے وجوہات کیا ہیں؟ جو کچھ ظاہر ہے تو اگر زیادہ نہ ہوں تو کم از کم بعض لوگوں کی سمجھ سے بالاتر نہیں کہ جامعات میں عدم اطمینان ہیجان خیزی جبکہ آئے روز احتجاج کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی دو کشتیوں میں سوار کیا گیا ہے مطلب حکمرانی صوبے کی جبکہ پیسہ وفاق کے پاس اوپر سے ہر سال تنخواہوں‘ الاؤنسز اور پنشن میں اضافہ مگر ادائیگی کیلئے یونیورسٹی کو ملنے والی گرانٹ میں اضافے کی بجائے مسلسل کٹوتی‘ یونیورسٹیوں سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے لئے ذرائع آمدن پیدا کرکے اپنی ضروریات کے مالی وسائل کا از خود انتظام کرلیں بہت خوب؟ کہاں سے کرلیں‘ کیسے کرلیں؟ کیا ذرائع آمدن ڈھوندنا یعنی مالی وسائل کا بندوبست بغیر کسی طویل منصوبہ بندی اور حکومتی تعاون کے بھی ہو سکتا ہے؟ جامعہ پشاور کے انتظامی بڑوں کا کہنا ہے کہ طلباء کی فیس ہی ان کا واحد ذریعہ آمدن ہے مگر وہ بھی اساتذہ ہی کے ہاتھوں ہر سال30فیصد سے زائد فیسیں واجب الادا ہوتی ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ فیس ادائیگی کے بغیر اگلے سمسٹر کی کلاسز اور امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ ایسے طلباء کو روکنا محض اساتذہ کی ذمہ داری ہے یا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹس افیئرز اور اکاؤنٹس سیکشن بھی اس کام میں شامل ہیں؟ بہرکیف آمدم برسر مطلب‘ پشاور یونیورسٹی ملازمین کا احتجاج تقریباً ایک مہینے سے ان سطور کے لکھنے  تک جاری ہے اس دوران یونیورسٹی انتظامیہ بھی مکمل نہ سہی مگر جزوی طور پر مفلوج ہو چکی ہے فریقین میں سے احتجاجی فریق کا موقف دوسرے فریق یعنی انتظامیہ سے قدرے زیادہ واضح یا بہ الفاظ دیگر دو ٹوک ہے بعض قریبی ذرائع کے مطابق انتظامیہ کے موقف کے اہم یا بنیادی جزئیات میں یہ بھی شامل ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اگر دستیاب پیسے ملازمین کو بقایا جات میں ادا کر دیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل اگر تنخواہوں کیلئے پیسے نہ ہو تو ملازمین سڑکوں پر نہیں بیٹھیں گے؟ میرے خیال میں ایسے مواقع اور معاملات میں تو کل برخدا ہی میں بھلائی اور نجات مل سکتی ہے ماضی کی ضروریات خدا نے پوری کردی ہیں اور حال میں بھی اگر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یونیورسٹی کے پاس تنخواہ کیلئے پیسے نہیں بلکہ اس کی وجہ تو ملازمین کے ہاتھوں یونیورسٹی دفاتر اور تدریسی شعبہ جات کی تالہ بندی ہے جس میں شعبہ امتحانات یا سیکریسی اور اکاؤنٹس بھی شامل ہیں کیونکہ ملازمین تو خیر سے گزشتہ7مارچ سے صبح دفتر آکر رجسٹر میں حاضری لگانے کے بعد احتجاجی کیمپ کا چکر لگا کر دوپہر کو گھر کارخ کر لیتے ہیں‘ مطلب یہ کہ تنخواہ بنی ہی نہیں تو ادائیگی کیسے ہوگی؟ یا اگر تالہ بندی میں سویرے سویرے کچھ وقت نکال کر متعلقہ ملازمین نے قسط وار کام کرکے بنوائی بھی ہو لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اور احتجاجی ملازمین بالخصوص ان کی قیادت یعنی جائنٹ ایکشن کمیٹی کے منتظمین کے مابین چپقلش‘ رسہ کشی‘ تناؤ اور میں نامانوں کا جو ماحول بن گیا ہے اسکے ہوتے ہوئے انتظامیہ کے متعلقہ بڑوں سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ عفوو درگزر کو ترجیح دیکر تیز و تلخ نعرہ بازی کے جواب میں تنخواہ جاری کردیں؟ اب یہ مسئلہ اساتذہ جبکہ کلاس تھری اور کلاس فور میں شاید بہت ہی کم لوگوں کا نہ ہوگا مگر اکثریت تو ایسے ملازمین کی ہے جو تنخواہ نہ ملنے سے رل جاتے ہیں ممکن ہے کہ اب بھی ایسے ملازمین نے نانبانئیوں‘ دودھ دہی والے اور کریانہ فروشوں کی تیز و تلخ باتیں سنی ہوئی ہوں گی مگر کیا کریں کہ جیک کی بھائی بندی سے نکلنا بھی تو آسان نہیں‘ ملازمین اور انتظامیہ کے مابین مذاکرات کے پہلے دور کی ناکامی دراصل اس غیر لچکدار موقف کا نتیجہ ہے جو فریقین نے اپنا رکھا ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ معاملات ملکی ہوں یا بین الاقوامی‘ سیاسی ہوں یا انتظامی ہر صورت میں اختلافات کو مذاکرات اور وہ بھی کچھ لو کچھ دو کے طریق اور مروجہ اصول کے تحت حل کرنا ہوگا بصورت دیگر بہتری کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست کا  ہر شعبہ زندگی  پر اثر پڑا ہے یعنی معاملات اور اختلافات کو مل بیٹھ کر مذاکرات کی میز پر حل کرنے  کی روش ترک کر دی گئی ہے اس کا ایک واضح ثبوت پشاوریونیورسٹی کی انتظامیہ اور ملازمین کے اتحاد کے مابین ڈیڈ لاک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ایسے میں ملازمت کے نئے قواعد و ضوابط آنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اگر یہ سچ ہو اور نئے قوانین کا نفاذ ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟