یونیورسٹی بندش‘ مسئلے کی جڑ کیا ہے؟

کسی بھی تنازعہ میں فریقین کے موقف کو بلاچون و چرا یعنی سوفیصدحق بجانب اور درست تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ زیادہ اہمیت درمیانی بات یعنی تنازعہ میں صلح و صفائی کرنے والے فریق کی ہوا کرتی ہے مانا کہ یونیورسٹی اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف نے اپنی یکجہتی اور ڈٹے رہنے میں اپنی یکسوئی اور حوصلے کا ثبوت دیدیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ انتظامیہ کا موقف یکسر بے جا اور ناقابل شنوائی ہے دراصل یہ سوچنا اور اس بات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے کہ یونیورسٹیوں میں عدم اطمینان کی کیفیت اور ملازمین کی بے چینی اور احتجاج کی وجہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پالیسی ساز اور حکمران فریق تعلیم کو عوام کے بنیادی آئینی حق کے طورپر تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے کہ تعلیمی نظام چلے موثر رہے اور ملک تعلیم کے شعبے میں دنیا کے دوسرے ممالک کا ہم پلہ ہو جائے ورنہ تعلیم اور تعلیمی ادارے ایسی کسمپرسی پسماندگی اور مسائل سے دوچار نہ ہوتے اور نہ ہی جامعات کے ملازمین ہفتوں اور مہینوں احتجاج اور ہڑتال پر مجبور ہو تے، احتجاجی سٹیج کی جذباتی نعرہ بازی میں معروضی صورتحال عدم اطمینان اور بے چینی کی تالہ بندی میں تبدیل ہونے کے عوامل کے بارے میں سوچنا پرکھنا اور پھر اعتدال پسندی کو ترجیح دینا الگ الگ چیزیں ہوتی ہیں جامعہ پشاور میں 7مارچ سے ہڑتال تالہ بندی اور فریقین کے غیر لچکدار رویئے کے ہاتھوں اگرچہ اس احتجاج میں شریک درجہ چہارم ملازمین بھی مشکلات اورپریشانی کا شکار رہے بلکہ یہاں تک کہ کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے غرباء  تو اپنی عید یعنی ایسٹر پر عیدایڈوانس  سے اس کے باوجود محروم رہے کہ مارچ کی تنخواہ بھی عید کے دن تک لٹک گئی تھی ایسے میں ان عمر رسیدہ اور بیمار ریٹائرڈ ملازمین کا کیا کہئے جو پنشن کیلئے اکاؤنٹس میں آتے اور مایوس لوٹتے رہے اب چونکہ خیرسے بعض بہی خواہوں کی کوشش سے فریقین کے مابین مذاکرات کی شروعات ہوچکی ہیں جو کہ ان سطور کے لکھنے تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا تاہم ناامیدی کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سوائے اس کے اور کوئی طریقہ نہیں جس پر عمل کرکے مسئلے کا حل نکالا جائے،حکومتی اداروں اور سماجی حلقوں کی تشویش رہنماؤں کا اظہار یکجہتی اور دوسری جامعات کے ملازمین کی پنڈال میں آمد اور جوشیلی تقاریر میں اپنا حصہ ڈالنا اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر مسائل کو حل کرنا ہے تو یہ یونیورسٹی انتظامیہ اور ملازمین کی مشترکہ ذمہ داری ہے چونکہ انتظامیہ بھی ملازمین ہی پر مشتمل ہے لہٰذا نفع نقصان بھی مشترکہ مانا جائے گا یہ الگ بات کہ ملازمین کے ایک فریق نے دوسرے کو ملازم دشمن قرار دیکر طعنہ زنی‘ دھمکیوں بلکہ بعض اوقات تو دشنام طرازی پر بھی اتر آنیکی جن روش کا مظاہرہ کیا  یہ طرز عمل کسی طرح بھی کسی کے حل میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتا دوسری جانب کا المیہ بھی نہایت ہی قابل افسوس رہا کہ یونیورسٹی ایک مہینے سے زائد عرصے سے بند پڑی ہے مگر انتظام و انصرام کی یہ حالت ہے کہ پانچ ہفتے تک مذاکرات بھی شروع نہ ہو سکے‘ فریقین اس حقیقت کو آخر کیونکر نظر انداز کر رہے ہیں کہ مسائل اور مشکلات قواعد و ضوابط اور دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہی حل ہونگے اب وسائل اور قواعد وضوابط  دونوں ڈھکے چھپے نہیں بلکہ فریقین کے سامنے ہیں جامعہ کو چلانے کیلئے سال بھر کا بجٹ کتنا ہونا چاہئے؟ دستیاب کتنا ہے؟ جبکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی رو سے ملازمین کس قدر مراعات کے قانونی حقدار ہیں؟ ساتھ ہی یہ امر بھی نہایت قابل توجہ ہونا چاہئے کہ گزشتہ سال ملازمین کا طویل احتجاج جس معاہدے کے تحت ختم ہوا تھا اس پر کتنا عملدرآمد ہوا؟ اگر نہیں ہوا تو وجوہات اور عوامل کیا تھے اور کیا ہیں ایسے میں تو مجھے یونیورسٹی کے ایک غیر جانبدار بہی خواہ کی یہ بات قدرے پسند آئی جو ملازمین کی ہڑتال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ وائس چانسلر کے پاس جاکر منت سماجت کرینگے جھولی پھیلائینگے اور انہیں مستعفی ہونے کے لئے آمادہ کرینگے لیکن احتجاجیوں کو بھی ایک ایسے شخص کو سامنے لانا ہوگا جو وائس چانسلر کی کرسی پر بیٹھ کر ان کی تمام شرائط اور مطالبات من وعن پوری کرے؟