مادر علمی کا مستقبل‘ بیسک پے؟

یہ حقیقت جامعہ پشاور کے انتظامی افسران کے علاوہ غیر جانبدار تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے موجودہ سربراہ سے قبل تین سال ضائع کئے گئے جبکہ پروفیسر محمد ادریس کی کاوشوں کی بدولت تقریباً دو بلین روپے کے حصول کے نتیجے میں جامعہ بیسک پے کی ابتر حالت سے نکل آئی بہرکیف بہت سارے لوگ ممکن ہے کہ اس بات سے متفق نہ ہوں اور ان کے موقف کے مطابق وائس چانسلر موصوف یونیورسٹی کے چند افراد کی ہم نشینی کا یرغمال رہے اور اساتذہ کے اکثریتی گروپ کے خلاف جی بھر کر انتقامی کاروائیاں کیں یونیورسٹی کے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف موجودہ وائس چانسلر کے بارے میں جس قدر نفسیات نظریات اور گفتار کا حامل واقع ہوا ہے اس کا اندازہ تب خوب لگایا جا سکے گا جب7مارچ سے لیکر 18اپریل تک ملازمین اتحاد یا جیک کے احتجاجی کیمپ میں ہونیوالی تقاریر کاآڈیو یا ویڈیو ریکارڈ سننے کی زحمت گوارا کی جائے حقیقت تو یہ ہے کہ سارا جھگڑا پیسوں کا ہے یعنی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ لگا کر تعلیمی بجٹ کو حیران کن حدتک گھٹا دیا اور ساتھ ہی اٹھارویں آئینی ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے جامعہ کو اپنی مٹھی میں گھیرنے کی کوششیں شروع کیں لہٰذا نامساعد حالات اور ابتر مالی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے مادر علمی کے سربراہ نے تعلیمی ایمرجنسی اور اصلاحات کے کھوکھلے  نعرے کی تائید کرتے ہوئے یونیورسٹی ملازمین کو حاصل مراعات میں قدرے کمی کی غرض سے صوبائی قواعد و ضوابط اور ریٹ لاگو کرنے کا قدم اٹھا لیا مگر یونیورسٹی ملازمین کی مزاحمت سے دوچار ہوئے دراصل ملازمین کا یہ کہنا بھی یکسر بے جا نہ ہوگا کہ بدترین مہنگائی میں اگر غریب ملازمین کو کچھ دینے کی پالیسی نہ ہو تو چھیننے کا کیا جواز ہے؟ مطلب یونیورسٹی ملازمین نے دوٹوک کہہ دیا کہ وہ یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں وائس چانسلر کا ساتھ نہیں دے سکتے یعنی ان کے بچوں کی تعلیم مفت‘ داخلہ بغیر میرٹ‘ ہاؤس سبسڈی ریکوزیشن اور میڈیکل الاؤنس وغیرہ میں کسی قسم کی کمی یا ردوبدل کو قبول نہیں کرینگے اسی طرح تدریسی سٹاف کے اکثریتی گروپ کا ابتداء ہی سے وائس چانسلر سے اس کے باوجود تعلق مثالی نہیں رہا کہ گروپ کے اس وقت کی قیادت نے وائس چانسلر کا خیر مقدم پھولوں کا گلدستہ پیش کرکے کیا تھا اور ساتھ ہی ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں عصرانے پر بھی مدعو کیا مگر کیا کریں کہ بعض عناصر نے باہمی تعاون‘ احترام اعتماد اور اشتراک عمل کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور یوں الزام تراشیوں اور مقدمہ بازیوں کے سلسلے نے جنم لیا بداعتمادی اس حد تک بڑھی کہ حالیہ ہڑتال جو کہ ڈیڑھ مہینے کے قریب پہنچ گئی اور جس کے ہاتھوں طلباء کے سمسٹر کی بربادی کیساتھ ساتھ مختلف متعلقہ حلقوں‘ افراد اور پنشنرز کو شدید مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا محکمہ اعلیٰ تعلیم‘ گورنر‘ مختلف شخصیات اور جامعہ کے سابقہ سینئر ترین اساتذہ کی کوششوں‘ ثالثی بلکہ یہاں تک کہ گورنر اور صوبائی حکومت ملازمین اور یونیورسٹی انتظامیہ کے تصفیہ میں بطور ضامن بھی شامل ہوئے لیکن ملازمین اتحاد نے چانسلر کے روبرو اس وقت تک تالہ بندی اور احتجاجی کیمپ کے خاتمے سے انکار کر دیا جب تک سنڈیکیٹ سے  ملازمین کے مطالبات جسے بعض لوگ شرائط بھی کہتے ہیں کی منظوری لے کر اس کا باقاعدہ اعلامیہ جاری نہ  ہو جائے، وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ملازمین اتحاد کے اس سخت گیر موقف کو تسلیم کیا گیا یا مذاکرات کے ذریعے افہام وتفہیم کے لئے ایک ہفتہ کی کوششیں رائیگاں گئیں اور ڈیڈ لاک سامنے آگیا؟ اس صورتحال کی اصل وجہ فریقین کے مابین اعتماد کا فقدان ہے ملازمین کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کی ہڑتال جن مذاکرات اور عہدوپیمان کی بنیاد پر ختم کی گئی تھی اس پر بعدازاں عملدرآمد نہ ہو سکا لہذا وہ اس بار کوئی رسک نہیں لینگے یونیورسٹی کی طویل تالہ بندی کے ہاتھوں جامعہ کو کروڑوں روپے مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا‘ طلباء نے مارچ اور اپر یل کی فیسیں جمع نہیں کیں جبکہ آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ شعبہ امتحانات میں پڑے تالے تو زنگ آلودہ ہو گئے ایسے میں یہ اندازہ لاگنا مشکل نہیں ہوگا کہ پشاور یونیورسٹی بڑی تیزی سے ایک بار پھر بیسک پے کی ابتر حالت کی جانب لوٹ رہی ہے؟۔