ماضی سے وابستگی

ماضی سے تعلق جہاں حال کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے وہاں مستقبل کا خاکہ بننے میں بھی یہ تعلق کلیدی اہمیت رکھتا ہے، ”اد ب کے اطراف میں“ناصر علی سیّد کے کالموں پر مبنی ان کی کتاب ہے، ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں ”جب مو سم گر ما اپنے جو بن پر ہو تا ہے تو مجھے ملتان بہا ولپو ر اور فیصل آ با د جیسے گر م تر ین علا قوں کے سفر کا حکم مل جا تا ہے اور جب کھٹے میٹھے سر ما کے مو سم کی آ مد آ مد ہو تی ہے تو مجھ سفر نصیب کو ایبٹ آ با د اور گلیا ت کا رخ کر نا پڑتا ہے ایسا ہی اب کے بھی ہوا کہ مجھے ایبٹ آ با د جا نا تھا مگر یہ سفر صبح کی بجا ئے سہ پہر تک مؤخر کر نا پڑا کیو نکہ اس بیچ شعبہ اردو کی ایک پُروقار تقریب حا ئل ہو گئی شعبہ اردو جسے فارسی شعبے کے اشتر ا ک کے بعد ایک ایسا لمبا چو ڑانا م دے دیا گیا ہے جسے دوبا ر بھی مسلسل پڑھنے کے بعد سا نس پھول جا تی ہے اور جسے شعبہ اردو کے احبا ب بھی ”اردووا“نہ سکے اور کا رڈ پر انگر یز ی نا م کے بعد محض پشا ور یو نیو رسٹی کی بجا ئے ”جا معہ پشا ور“کا تڑ کا لگا نے پر اکتفا کیا۔ یہ تقر یب طر ح دار شا عر فرا ز کی یاد میں تھی اور ظا ہرہے احمد فرا ز سے عقیدت اور محبت کر نے وا لو ں کی کمی نہیں۔سو ہال طلبہ و طا لبا ت اور پشا ور کے ممتا ز اہل قلم سے بھر ا ہو ا تھا صا حبا ن صدا رت سے حرف ولفظ کے قبیلے کے قداور لو گ مو جو د تھے ڈا کڑ ظہور احمد اعوا ن‘پر و فیسر طٰہ خان‘ڈا کٹر نذیر تبسم اور اسلا م آ با د سے آ ئے ہو ئے صا حب طر ز شا عر حلیم قر یشی کے علا وہ وا ئس چا نسلر ڈا کڑ عظمت حیا ت خان بھی مو جو د تھے۔ تقریب میں فاروق جا ن آزاد کی نظم اور نذیر تبسم کی گفتگوتو میں نہ سن سکا تا ہم عزیز اعجا ز اور سجا د با بر کی بہت ہی خوبصورت نظموں اور ظہو ر احمد اعوان‘طہ ٰخان اور حلیم قر یشی کی عمدہ گفتگو نے تا د یر مجھے سر شا ر رکھا اور ہر چند کہ میں شا م ڈھلے ایبٹ آ با د پہنچا لیکن با عث تا خیر کا کو ئی پچھتا وا نہیں تھا ایبٹ آ با د کے لو گ سر شا م سونے کے عا دی ہیں اس لئے جلدی ڈنرکے بعد جب میں نے اپنے میزبا ن جہا نگیر سے پو چھا کہ با زار کھلے ہو ں گے تو اس نے بڑی غیر یقینی کے سے انداز میں اپنے سا تھیوں کی طر ف دیکھا اور کہا شا ید ابھی کھلے ہو ں گے لیکن جب ہم را ت گئے ما نسہر ہ روڈ پردور تک گئے تو معلو م ہو ا سا را ایبٹ آ با د جا گ رہا ہے‘ ویک اینڈ کی وجہ سے شا د ی بیا ہ کے ہنگاموں کے با عث سا رے بڑے ہو ٹل اور شا دی ہا ل جگمگا رہے تھے۔ زرق برق کپڑوں میں خوا تین اور بچے سڑک کنا رے یہا ں وہا ں آ جا رہے تھے۔ عجب ایک رو نق اور گہماگہمی تھی ایبٹ آ با د کو یو ں فر حا ں وشا داں جا گتے دیکھ کر جی خو ش ہو ا اور بے اختیا ر دل سے د عا نکلی کہ میرے رب میرے سا رے شہر اس قصبے اسی طر ح امن و سکون سے رہیں اور ان کی خو شیو ں کو کسی کی نظر نہ لگے۔بہت دیر تک ہم ایبٹ آباد کی ان رونقوں کوانجوائے کرتے رہے اور کوئی ایک ڈیڑھ بجے رات ہم پولیس ریسٹ ہاؤس کے کشادہ آراستہ کمروں میں لوٹ آئے صبح سویرے پروگرام نتھیا گلی کا تھا میں حسب معمولی صبح سویرے جا گا اور جونہی دروازہ کھولا ایبٹ آباد کی سرد ہوا نے صبح بخیر کہا اور میں لرز کر رہ گیا واپس کمرے کی گرمی میں لوٹ آیا مگر دروازے کو ادھ کھلا ہی رہنے دیا تاکہ کمرے کی فضابھی قدرے خنک ہو جائے ادھ کھلے دروازے کا فائدہ یہ ہوا کہ جب نور کاتڑکا لگا تو سب سے پہلے کمرے کے باہر کے لان میں موجود ایک بہت ہی خوبصورت سفید گلاب نظر آیا جس نے میری صبح کو خوبصورت بنا دیا مجھے و ہ گلاب کا پھول یاد آ گیا جسے رات گئے ناصر کاظمی اور ا ے حمید نے دیکھا تھا“۔ ناصر علی سیّد کی کتاب سے اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ وہ چند نام ہیں جو اب ہم میں نہیں رہے تاہم ان کی شعری اور نثری تصانیف اب بھی ان کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں،ان ہستیوں سے ناطہ جوڑنے کا ایک بہترین اور موثر طریقہ کتب بینی ہے جس کے ذریعے ایک شخص ان کو اپنے درمیان محسوس کرتا ہے ان کی سوچ اور فکر سے روشنی حاصل کرتا ہے۔