تعلیمی ضیاع کا ازالہ؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم اب غریب تو کیا متوسط طبقے کے بس کی بات بھی نہیں رہی، پاک سرزمین کے ایسے کتنے باسی ہیں جو کالج اور یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک پہنچ کر بعد ازاں برسرروزگار بھی بن جاتے ہیں؟ مادر علمی کی حالیہ طویل ہڑتال اور تالہ بندی میں اگرچہ ہر حوالے سے نقصان اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تاہم سب سے زیادہ ضیاع طلباءکا ہوا جو تقریباً پانچ ہفتے کلاسز سے محروم رہے طلباءتنظیموں بالخصوص اسلامی جمعیت طلبہ نے تدریسی عمل کی بحالی کے لئے حسب روایت کافی جدوجہد بھی کی مگر مختلف وجوہات کی بناءپر کامیاب نہ ہوئی اور یوں7 مارچ سے جاری تدریسی تعطل اب ممکن ہے کہ اپریل کے آخری ہفتے میں کسی حد تک ختم ہو جائے۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور جائنٹ ایکشن کمیٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کے بعد آگے چل کر کیا ہو گا؟ دراصل ملازمین کے جو مطالبات بادل ناخواستہ مان لئے گئے ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں پورا کرنے کےلئے پیسہ چاہئے اور پیسے کی دستیابی کا تو یہ عالم ہے کہ یہاں پر اگر کسی چیز کے لئے پیسہ نہیں ہے تو وہ بیچاری تعلیم ہے ۔ جیک کی تالہ بندی اور ہفتہ وار چھٹیوں سمیت 43 روز تک بندش اور احتجاجی کیمپ کے دوران جیک کے نمائندوں بالخصوص پیوٹا کے صدر نے طلبہ کے تعلیمی ضیاع کے ازالے کا جو اعلان کیا ہے، طلبہ اس پر عملدرآمد کے منتظر ہیں جبکہ عدالت ‘ گورنر اور محکمہ اعلی تعلیم بھی اسی بات پر زور دے رہے ہیں اسی طرح جامعہ کا ٹریژرری ونگ تالہ بندی کے ہاتھوں یونیورسٹی کو پہنچنے والے بھاری مالی نقصان کے لئے فکر مند ہے ،ٹریژری سیکشن کے ذرائع کے مطابق تالہ بندی کے سبب یونیورسٹی کو کم از کم 
25 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا ہے جو کہ پہلے سے مالی ابتری کی حالت ہوتے ہوئے ایک المیہ سے کم نہیں ۔ جو ہوا سو ہوا کے مصداق اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ انتظامیہ کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک نہایت سینئر اور سنجیدہ رکن کا اس یقین کا اظہار ہر بہی خواہ کے لئے باعث اطمینان ہو گا کہ گزشتہ سال کی ہڑتال جن مذاکرات اور معاہدے کے تحت ختم ہوئی تھی اس کے برعکس حالیہ معاہدہ زیادہ حقیقت پسندانہ مستحکم اور قابل اعتبار اسی لئے ہے کہ وائس چانسلر کی نامزد مذاکراتی کمیٹی با اختیار اور مسئلے کے حل میں سنجیدہ تھی جہاں تک تعلیمی ضیاع کے ازالے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں معمول کے دنوں میں تو ممکن نہیں ہو گا البتہ یہ ممکن ہے کہ اساتذہ گرمیوں کی تعطیلات کو طلباءکے اس قرض کی ادائیگی کے لئے وقف یا مختص کر دیں۔ یونیورسٹی ملازمین کی ہڑتال کے خاتمے کے بعد اب تین باتوں پر دھیان دنیا ضروری ہو گا یعنی جن مطالبات کو پورا کرنے کے لئے پیسہ درکار ہو اس میں حکومتی تعاون‘ تعلیمی ضیاع کے ازالے میں نان ٹیچنگ سٹاف کا شامل ہونا جبکہ احتجاجی کیمپ کے سٹیج کی تقاریر میں اگر غیر ارادی طور پر بھی انتظامیہ کے بارے میں کوئی ناشائستگی سرزد ہوئی ہو تو معذرت کرکے بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ اب اگرچہ یونیورسٹی ڈیڑھ مہینے کے غیر اعلانیہ چھٹی کے بعد26 اپریل کو کھل گئی لیکن حیرت کا عالم یہ ہے کہ اساتذہ تو حاضر ہیں مگر طلباءغائب ہیں ویسے ممکن ہے کہ پیر یکم مئی سے تدریسی عمل کافی حد تک بحال ہو جائے لیکن کلاسز ضیاع کا مسئلہ پھر بھی درپیش رہے گا۔ اساتذہ کا اعلانیہ ارادہ تو یہ ہے کہ وہ طلباءکے اس قرض کو اتار کر ہی دم لیں گے جیسے کہ ملازمین اتحاد کے چیئرمین اور ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد عزیر خان نے ایک نہیں بلکہ کئی بار احتجاجی کیمپ کے سٹیج پرآ کر اعلان کیاہے ۔ بہتر ہو گا کہ طلباءکی قیمتی وقت کا ازالہ ہو سکے اور ساتھ ہی مطمئن بھی ہو جائیں کیونکہ صرف طلباءہی یونیورسٹی کے حقیقی سٹیک ہولڈر ہیں۔