مادر علمی کے ملازمین کے تمام تر مسائل کا حل اگر ممکن بھی ہو جائے یعنی ترقی سے محروم اساتذہ ترقی پائیں‘ عرصہ سے پی ایچ ڈی ہولڈر ہونے کے باوجود80سے زائد میل اور فی میل ٹیچرز لیکچررشپ سے اگلی پوزیشن میں پروموٹ ہو جائیں، تدریسی عمل یعنی کلاسز کا وقت اساتذہ کی مرضی اور سہولیات کے مطابق مقرر ہو جائے‘ ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف معہ افسران کی جو کمی درپیش ہے وہ بھی پوری ہو سکے اور ساتھ ہی حالیہ43 روزہ ہڑتال اور تالہ بندی کے دوران پہلے لاء کالج چوک اور بعدازاں ایڈمن بلاک میں احتجاجی کیمپ کے سٹیج سے جو مطالبات نہایت تسلسل سے سامنے آئے ہیں وہ بھی تمام تر پورے ہو جائیں تو کیا اس کے علاوہ اور کوئی مسئلہ نہیں رہے گا؟ بلاشبہ کہ اس کے علاوہ بھی بہت سارے بلکہ ضروری مسائل بھی درپیش ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ وہ اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین اور ذمہ دار لوگوں یعنی انتظامی افسران سے یکسر اوجھل ہیں،جواب طلب امر تو یہ ہے کہ ان تمام ملازمین میں سے جو کہ میرے نزدیک ہر ایک مادر علمی کا سٹیک ہولڈر ہے اگر کسی نے بھی عرصہ20سال تک بحیثیت ملازم یونیورسٹی میں گزار دیئے ہوں تو مہربانی کرکے احساس ذمہ داری کیساتھ یونیورسٹی کے موجودہ ابتر ماحول کا جائزہ لیکر خود احتسابی کیساتھ رائے قائم کرلیں کہ آیا یونیورسٹی کا ماحول ایسا ہوتا ہے؟ یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ مادر علمی کا جنرل بس سٹینڈ میں تبدیل ہونے‘ شور‘ دھوئیں‘ تیز رفتاری‘پریشر ہارن ہر قسم کی ہلڑبازی صفائی کی ابتر حالت‘ ہراسیت اور ٹک ٹاکری سمیت سیاسی جماعتوں کی ٹوپیوں‘ ناقص فوڈ آئٹمز اور من مانی قیمتوں کے بارے میں سٹیک ہولڈروں کا جواب کیا ہے؟ یونیورسٹی کا ماحول جو کہ آج سے دوعشرے قبل تھا دوبارہ قائم کرکے جامعہ پشاور کو حقیقی معنوں میں ایک درسگاہ کی حیثیت کون دلائے گا؟ کیا یہ مسائل ان کی
ہڑتالوں‘ تالہ بندیوں اور نعرہ بازیوں کے ذریعے ان کے تمام مطالبات تسلیم ہونے سے حل ہو جائینگے؟ میری مخلصانہ رائے تو یہ ہے کہ بالکل بھی نہیں جب تک ہر ملازم اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار نہ سمجھے اور جب تک ہر ایک اپنے حصے کا کردار ادا نہ کرے اب بھی وقت ہے کہ ہر ٹیچر ہر کلرک ہر افسر اور سب سے بڑھ کر جامعہ کا سربراہ آگے آئے اور جن مسائل‘ عدم ذمہ داری اور ابتری کی ان سطور میں نشاندہی بار بار کی گئی ہے اس کا قلع قمع کریں محض ترقیاں‘ تنخواہیں‘ مراعات ہفتے میں دو چھٹیاں اور یونین بازی مادر علمی کی شان رفتہ کی بحالی میں کسی طرح بھی مدد ثابت نہیں ہوگی مجھے یاد ہے کہ آج سے دو عشرے قبل تک جبکہ پورے صوبے میں صرف چار یونیورسٹیاں قائم تھیں اور صوبہ بھر معہ قبائلی علاقہ جات کے200 کے قریبی کالجز اور دوسرے تعلیمی ادارے جامعہ پشاور سے ملحقہ تھے یعنی لاکھوں ریگولر اور پرائیویٹ طلبہ پشاور یونیورسٹی کے زیر انتظام بیچلر اور ماسٹر کے امتحانات دیا کرتے تھے اس وقت کے ملازمین سے موجودہ ملازمین کی تعداد کہیں زیادہ ہے یہ وقت کی ضرورت اور احساس ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ جامعہ کے ملازمین اپنے آپ کو حقیقی سٹیک ہولڈر ثابت کرتے ہوئے اس حسین کیمپس اورملک کی اس قدیم درسگاہ کو مزید ابتر ہونے سے بچانے کی ذمہ داری نہایت دیانتداری اور مستقل مزاجی کیساتھ انجام دیں کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جو ان کی عزت شہرت اور ان کی زندگی سے جڑی ضروریات پوری ہونے کا وسیلہ ہے ساتھ ہی طلباء کے نہایت قیمتی تعلیمی وقت کا جو ضیاع یونیورسٹی ملازمین کی تالہ بندی کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا ہے اسے لازماً پوراً کریں کیونکہ یہ طلباء کا قرض ہے اور اس کی ادائیگی محض اساتذہ کے ذمے نہیں بلکہ وہ تمام غیر تدریسی ملازمین بھی برابر کے شریک ہیں جو ہڑتال کے دوران کبھی احتجاجی کیمپ اور کبھی اپنے گھروں اور اپنے کاموں میں مصروف رہے‘ اسکے ساتھ ساتھ جامعہ کے سربراہ کے حق میں دعائے خیر بھی غیر ضروری نہیں ہوگی جنہوں نے کیمپس کی دوسری یونیورسٹیوں کے برعکس رمضان میں حاضری کا وقت صبح9بجے اور چھٹی کا سہ پہر تین بجے مقرر کیا۔