گزرے واقعات کو لکھنا ہو یا موجود حالات کوپیش کرنا اہل قلم انہیں پڑھنے والوں کیلئے معلومات افزا اور دلچسپ بنا دیتے ہیں،یہ ایک قلمکار کی انفرادیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی یاداشتوں کو ایسے انداز میں مرتب کرے کہ پڑھنے والے اپنے آپ کو اسی ماحول کو حصہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جس کے بارے میں مصنف بیان کرتا ہے۔ایسی تحریریں صدا بہار ہوتی ہیں اور ہر دور میں قارئین کی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کی یاداشتیں اس حوالے سے دلچسپ اور قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے والی ہیں کہ ایک تو ان کا طرز تحریر اور اسلوب منفرد ہے اور ساتھ ہی اپنی قوت مشاہدہ کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ واقعات کی جزیات کو بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں‘ کسی بھی شہر یا ملک کی روایات اسی صورت زندہ رہ سکتی ہیں جب نوجوان نسل کو ان سے آگاہ کیاجائے، رضا علی عابدی ماریشس میں ان نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کا احوال لکھتے ہیں جن کے آباؤ اجداد برصغیر سے وہاں جاکر آباد ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز نوجوانوں نے مجھے گھیر لیا‘ ”صابر نے کہا ”یہ کشمیر کا کیا مسئلہ ہے“ عظیم نے کہا”ہمیں بھی سمجھائیے“۔ میں سمجھانے لگا کہ کشمیر پاکستان سے کس طرح جڑا ہوا ہے‘ سیالکوٹ سے جموں تک ریل گاڑی چلتی تھی اور راولپنڈی سے سری نگر تک تانگہ جاتا تھا‘
اچانک ایک لڑکا بولا“۔”تانگہ کیا ہوتاہے؟“
اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ان کے بزرگ ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان سے آئے اور پھر کبھی واپس نہیں گئے‘ میں جتنے دن ماریشس میں رہا ہر ایک سے پوچھتا پھرا کہ کبھی ہندوستان پاکستان جانا ہوتا ہے‘ چند طالب علموں کے سوا سب نے نفی میں جواب دیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کو اب تک زندہ رکھاہے۔ایک روز درسی کتابیں ا ور نصاب مرتب کرنے والے سرکاری ادارے میں ایک نشست ہوئی‘ دور دور سے اردو پڑھانے والے استاد وہاں آئے تھے‘د یر تک باتیں ہوتی رہیں‘ ولی دکنی کا انتخاب کیسے پڑھایا جائے‘ فسانہ آزاد پڑھانے سے طالب علموں کو کتنا فائدہ ہوگا‘ مثنوی گلزار نسیم کا مطالعہ کتنا مفید ہوگا اورہاں اگر میرا من کی باغ وبہاربھی پڑھا دی جائے تو کیا مضائقہ۔آخر میں میری باری آئی‘ مجھ سے پوچھا گیا کہ ماریشس میں اردو کی تعلیم کیسے ہو؟میں نے کہا مجھے ایک طالب علم تصورکریں میرے دادا کے دادا 1858ء میں انگریزوں کے ظلم سے بچنے کیلئے جہاز میں بیٹھ کر ماریشس آئے‘ اس کے بعد ہم واپس نہیں گئے‘ آپ مجھے ماریشس کے غلاموں کی کہانی کیوں نہیں پڑھاتے کہ وہ کیسے آزاد کئے گئے‘ آپ مجھے ہندوستان سے جہازوں میں بھر بھر کر لائے جانیوالے مزدوروں کا ناول کیوں نہیں پڑھاتے‘ آپ مجھے قاسم ہیرا کی غزلیں ا ور عنایت حسین عیدن کے ڈرامے کیوں نہیں پڑھاتے، محمد حنیف کنہائی کی لکھی ہوئی مختصر کہانیاں پڑھائیے، ماریشس کے ان پرندوں کی داستان پڑھائیے جنہیں یورپی آباد کار بھون کر کھا گئے اور اب وہ ناپید ہیں‘ میری اس تقریر پر بہت بحث ہوئی‘ میں مسرور ہوا کیونکہ میں چاہتا بھی یہی تھا کہ لیکچر نہ ہو‘ بحث ہو۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ نئی نسل کو ماضی سے جوڑے رکھنے کی ضرورت کا احساس ہے کہ کس طرح ماریشس میں بسنے والے لوگوں کی نئی نسل اپنے بڑوں کی جائے پیدائش اور وہاں کی ثقافت اور تاریخ سے بے بہرہ ہوگئے تھے۔