گزشتہ روز انجام کار ایک لمبے انتظار کے بعد جو کئی برسوں پر محیط تھا‘ برطانیہ کی بادشاہت کے ولی عہد پرنس چارلس نے برطانیہ کے بادشاہ کا منصب سنبھال ہی لیا ان کی والدہ ملکہ الزبتھ نے ایک لمبی عمر پائی اور وہ سو برس کے لگ بھگ زندہ رہیں ملکہ الزبتھ کی والدہ کا انتقال بھی ایک سو دوبرس کی عمر میں ہوا تھا‘ پرنس چارلس بھی اس وقت 70 کے پیٹے میں ہیں انہوں نے بطور ولی عہد ایک بہت لمبا عرصہ گزارا ہے جو ان سے پہلے شاذ ہی کسی برطانوی ولی عہد نے گزارا ہو اب ان کے بعد شہزادہ ولیم کے بادشاہ بننے کی باری ہے اب وہ ولی عہد کے منصب پر فائز ہیں ان کے اور ان کے چھوٹے بھائی پرنس ہیری کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں دونوں کے مزاج میں بڑا فرق ہے‘ پرنس ولیم سنجیدہ مزاج ہیں‘بالکل اپنی دادی کی طرح‘جبکہ پرنس ہیری لا ابالی مزاج کا حامل ہے‘اگلے روز لندن کے شاہی محل میں ایک رنگا رنگ تقریب میں کنگ چارلس کی بطور بادشاہ تاجپوشی ہوئی جس میں دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی‘ برطانیہ کے نئے بادشاہ کنگ چارلس کے بارے میں دنیا کے تقریباً تقریبا ًتمام سیاسی مبصرین اچھی رائے رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں بطور شاہی خاندان کے ایک فرد ان کی اور ان کی دادی ملکہ الزبتھ کے امور مملکت کے چلانے کے سٹائل میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہو گا‘ پرنس چارلس نے ایک لمبے عرصے تک بحیثیت ولی عہد بڑے نزدیکی زاوئیے سے ملکہ کو امور مملکت چلاتے دیکھا ہے اور وہ امور مملکت چلانے میں کافی کچھ سیکھ چکے ہیں اگر عمر نے ان سے وفا کی تو وہ بھی اپنی دادی کی طرح ایک لمبے عرصے تک برطانیہ کے بادشاہ رہ سکتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت صرف اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب کہ اس میں تمام سٹیک ہولڈرز آپس میں برداشت اور مفاہمت کا مظاہرہ کریں سیاسی سمجھوتے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر عمل درآمد کر کے ہی ممکن ہو سکتے ہیں اس ملک نے 1952ء اور1958ء
کے دوران سیاسی عدم استحکام کا ایک دور دیکھا ہے کہ جس میں وطن عزیز کے سیاست دانوں نے سات سال میں اتنے وزیر اعظم بدلے کہ جس پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نہرو نے یہ طنزیہ فقرا کسا تھا کہ میں نے گزشتہ پانچ چھ برسوں میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں کہ اس عرصے میں پاکستان نے اپنے جتنے وزرائیاعظم بدلے ہیں‘ اسی سیاسی غیر استحکام کی وجہ سے یہ ملک آمریت کا شکار ہوا تھا‘ آج کے سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ انا پرستی میں اتنے آ گے نہ بڑھیں کہ جو ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دے پہلے ہی وطن عزیز دہشت گردی کا شکار ہے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں آ ئے دن ہمارے جوان بھلے وہ فوج میں ہوں یا پولیس میں‘اپنا خون کا نذرانہ پیش کر کے مادر وطن کی حفاظت کر رہے ہیں ملک کی معشیت ڈانواں ڈول ہے جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا نہ اس کی معیشت سنبھلے گی اور نہ دہشتگردوں کا صفایا ہو سکے گا لہٰذا قوم اپنے سیاسی زعما ء سے توقع رکھتی ہے کہ وہ سیاسی دانشمندی‘ دور اندیشی اور سیاسی فہم و بصیرت کا مظاہرہ کر کے ملک کی بقاء کی خاطر انا پرستی کے خول سے فوری طور پر باہر نکلیں گے۔وطن عزیز میں آ ے دن اگر ایک طرف ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب ٹریفک کے حادثات میں بھی بے پناہ افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں معاملات کی طرف ارباب بست و کشاد کی جتنی توجہ ہونی چاہیے اتنی نظر نہیں آ رہی ممنوعہ بور کے اسلحہ یعنی کلاشنکوفوں وغیرہ کا پرائیویٹ ہاتھوں میں بھلا کیا کام‘ اس قسم کے اسلحہ کو تو صرف اور صرف حساس اداروں کے اہلکاروں کے پاس ہونا چاہئے‘ آگلے روز کرم ایجنسی میں ایک سکول میں اس کے استعمال سے ایک دلخراش واقعہ ہوا جس میں بیک وقت کئی جانیں لقمہ اجل ہو گئیں‘ ممنوعہ بور کے اسلحہ کی غیر متعلقہ ہاتھوں میں موجودگی کی وجہ سے ہی یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا‘وزارت داخلہ کو اس بابت فوری طور پر قانون سازی کر کے ممنوعہ بور کے اسلحہ سے ملک کو صاف کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے ٹریفک کے نظام کو برطانوی ٹریفک کے نظام کی طرز پر استوار کرنا ہوگا‘ سعودی عرب اور عرب امارات نے بھی اس ضمن میں اپنے ہاں ٹریفک کے جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔