تاج سعید

 (روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
ہمارے تاج سعید صاحب بیمار قلب تھے‘ بائی پاس کرایا‘ خوشی ہوئی‘ لوٹ کر گھر آئے مبارک سلامت ہوئی‘ ہنسے کھیلے‘ وہ بھی اور ان کے دوست بھی‘سمجھے ٹنٹا ختم ہوا‘ چند دن کے بعد پتہ چلا کہ اندر دل کی مرمت تو ہوگئی ہے باہر کے پنجرے کی سلائی ترپائی میں ایک آدھ انچ کی کسر رہ گئی ہے‘ اندر کے زخم مندمل ہوگئے باہر کے ٹانکے رستے رہے‘ دل کے نامراد آپریشن میں سینے کی ہڈیوں تک کو چیرا جاتا ہے اس کے بعد پنجرے کی سلائی کیلئے لوہے یا کسی اور دھات کا تار استعمال کیا جاتا ہے یہ تار بعد میں جسم کا حصہ بن جاتا ہے دل کا آپریشن مغرب والوں کیلئے بچوں کا کھیل بن گیا ہے‘ ہزاروں نہیں لاکھوں آپریشن روزانہ ہو رہے ہیں۔ مریض ایک آدھ ہفتے میں ہسپتال سے نکلتے ہی یہ جا وہ جا‘ ہمارے ہاں بھی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آبادمیں جراحت قلب کے لاتعداد آپریشن ہر ہفتے ہو رہے ہیں‘ تاج سعید صاحب نے بھی اسلام آباد سے ہی آپریشن کروایا تھا‘عموماً پاکستانی جراحتوں کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ ہوتے وقت تو یہ ٹھیک ٹھاک ہو جاتی ہے ہمارے ڈاکٹر مہارت میں غیر ملکی ڈاکٹروں سے کم نہیں مگر بعداز جراحت کے مراحل ہمارے ہاں کافی کٹھن ہوتے ہیں‘ماحول میں اس قدر گندگی‘ غلاظت اور آلود گی ہے کہ ہر وقت انفیکشن کا خطرہ لاحق رہتا ہے‘ تاج سعید صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا‘ ایک ادیب شاعر بڑا جریدہ نگار اپنا زخمی سینہ لئے گزشتہ ایک سال سے پشاور‘ اسلام آباد کے درمیان پھیرے لگا رہا ہے اس کی معروف افسانہ نگار اور شاعر و ادیب بیوی زیتون بانو ذہنی اور قلبی کرب میں مبتلا ہے‘ زندگی بھر کی جمع پونجی ریٹائرمنٹ سے حاصل ہونے
 والی رقومات علاج معالجے پر صرف ہوگئیں‘ تاج سعید کا سینہ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کھولا گیا پھر سیا گیا ہر سلائی کو آخری سمجھا گیا مگر پھر طرح طرح کی رطوبتیں رسنے لگتیں‘ اس وقت وہ پھر اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال میں لیٹا اپنے سینے کے زخموں  کے اندمال کا انتظار کر رہاہے کالم لکھتا ہے اس کے کالم چھپتے ہیں تو مجھے تھوڑی سی تسلی ہوجاتی ہے قلم توانا ہے ذہن توانا ہے تو قلب بھی توانا ہو جائے گا‘ زخم بھی سل کر سوکھ جائینگے تسلی کے ساتھ تھوڑی سی حیرت بھی ہوتی ہے تاج سعید کتنا بہادر انسان ہے کتنے بڑے عذاب سے گزر رہا ہے مگر تحریر میں تلخی‘ بیزاری اور یاس کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی‘ جو آدمی تاج سعید کی طویل و شدید بیماری اور معاشی مسائل کے پس منظر سے آگاہ نہ ہو وہ نہیں جان سکے گا کہ خوبصورت میٹھے متبسم کالم لکھنے والا خود کس کیفیت سے گزر رہا ہے‘ یہ تاج سعید اور اس کی حوصلہ مند بیوی کا کریڈٹ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دم نہیں لے سکی ہیں اور معاش کے چکر کو پاؤں میں ڈال کر پھر کو بہ کو پھر رہی ہیں افسانے لکھنے والی اس بڑی خاتون کی زندگی خود افسانہ بن گئی ہے‘ تاج سعید اس بیماری کے عالم میں بھی نئے نئے ادبی منصوبے بنا رہاہے ادیبوں کو خط لکھ رہا ہے‘ ٹیلی فون کر رہا ہے‘ اسے جریدے کے جمیل الدین عالی اور بیرون ملک پاکستانی ادیبوں کے نمبر نکالنے کی فکر ہے‘ گزشتہ مہینے میں دو تین مرتبہ کراچی گیا تو بار بار مجھے تاکید کی کہ جا کر جمیل الدین عالی سے ملو اور نمبر کے سلسلے میں ان سے موضوعات اور مضامین
 کے معاملات پر گتفگو کروں‘ تاج سعید نے مجھے کاغذ پر پورا نقشہ بنا کر سمجھایا کہ  اس طرح بات کرنی ہے‘ یہ ان کو کہنا ہے یہ ان سے منوانا ہے تاج سے جب بھی بات کرو ادب و شعر کی بات ہی کرے گا دھیمے لہجے کا ہنستا مسکراتا شخص ہے پتہ نہیں کس کی نظر اسے لگ گئی ہے ادب و شعر کی دنیا کا یہ خاموش کارکن چپ چاپ بڑے بڑے کام کرتا رہتا ہے اس نے جریدے کے بڑے دقیع نمبر نکالے ہیں یہ نمبر دستاویزات کا درجہ اختیار کر گئے ہیں‘ مجید امجد‘ راجندر سنگھ بیدی‘ ممتاز شیریں اور احمد فراز نمبر نہ صرف اہل فن سے داد وصول کرچکے ہیں بلکہ انہیں یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے تاج جو کام کرتا ہے بڑے سلیقے اور نفاست سے کرتا ہے اشاعت کے فن کا تو وہ استاد ہے کتاب ہاتھ میں آتے ہی پہلے اس کی ظاہری نوک پلک کو دیکھتا ہے مواد سے کم سروکار رکھتا ہے۔ طباعت‘ جلد بندی پیسٹنگ‘ کاغذ‘ کمپوزنگ کو پہلے دیکھتا ہے ہر کام سامنے بیٹھ کر کرواتا ہے اس نے اپنا اشاعتی ادارہ مکتبہ اژرنگ کے نام سے بھی کھولا ہے مگر ہمارے بدقسمت صوبے میں اشاعتی اور طباعتی سرگرمیاں خاص طورپر ادب و ثقافت کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہیں‘ پہلے تو ادبی کتابیں بہت کم شائع ہوتی ہیں جو ہوتی ہیں وہ بھی ادیب و شاعر خود شائع کرتے ہیں‘ قاری ناپید ہیں‘سو پچاس ادیب و شاعر ہیں جو کتاب خرید کر نہیں پڑھتے اس عالم میں تاج سعید جیسے جریدہ ساز کا دم غنیمت ہے۔دعا ہے کہ اس خادم ادب کے زخم سل کر سوکھ جائیں اور وہ اپنے پچپس سال پرانے سکوٹر کو شہر بھر میں گھگھیاتا نظر آئے کبھی ریڈیو میں کبھی ٹی وی میں اور کبھی پشاور کے اردو بازار محلہ جنگی میں‘ اب وقت آگیا ہے کہ کوئی ادارہ خود تاج سعید اور ان کی افسانہ نگار بیوی زیتون بانو پر ایک بھرپور نمبر شائع کرے تاکہ اس عظیم الشان ادبی جوڑی  کی ادبی و ثقافتی خدمات کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔