سفرنامے میں منظر نگاری کیساتھ اگر ہر مقام کی تاریخ پر لکھا جائے تو لطف دو بالا ہوجاتا ہے‘ رضا علی عابدی ماریشس میں خلیج مقبرہ سے متعلق لکھتے ہیں کہ اس علاقے میں خلیج مقبرہ بھی ہے‘ ماریشس کے مقامات کے جتنے بھی نام ہیں ا ن سے شاید ہی کوئی بے معنی ہو‘ خلیج مقابر دراصل وہ علاقہ ہے جہاں جہاز غرق ہوجایا کرتے تھے‘ ایک مرتبہ تو غالباً 1615ء میں ایک ولندیزی گورنر بھی اپنے جہاز کیساتھ ڈوب مرا تھا‘چنانچہ پورٹ لوئس کے پچھواڑے جس پہاڑ کی نوکیلی چوٹی کے اوپر ایک گول سی چٹان یوں ٹکی ہوئی ہے جیسے ہندوستان کا نقشہ الٹ دیا گیا ہو اور سری لنکا بالائی نوک پر ٹکا ہوا ہو‘ اس پہاڑ کا نام اسی ولندیزی گورنر کے نام پر رکھ دیا گیا‘ بعد میں جزیرے میں یہ پیش گوئی چل پڑی کہ جس روز ماریشس میں برطانوی حکمرانی کا خاتمہ ہوگا‘ نوکیلی چٹان کے شانوں سے دھرا ہوا یہ سر نیچے آرہے گا‘ برطانوی حکمرانی ختم تو ہوگئی ہے‘ ممکن ہے صرف دیکھنے میں ختم ہوئی ہو‘ کیونکہ وہ سر آج تک وہیں ٹکا ہوا ہے‘ خلیج مقابر میں پرانے زمانے کے اتنے جہاز ڈوب چکے ہیں کہ غوطہ زن آج تک وہاں سمندر کی تہہ میں خزانے ڈھونڈتے پھرتے ہیں‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بحری قزاقوں نے بھی وہاں خزانے دفن کئے تھے‘ وہ لوگ بھی ساحلی ریت ٹٹولا کرتے ہیں‘ سنا ہے کہ آج تک کسی کو وہاں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی‘ اس علاقے میں فرانسیسی دور کے کھنڈر بہت ملتے ہیں‘ مثلاً ایک جگہ فرانسیسیوں کے اسلحہ خانے‘ آٹا مل اور چونے کی بھٹی کے کھنڈر ہیں جن کے اوپر اب سبزہ اگ آیا ہے اور جن کے اطراف چشمے بہتے ہیں اور
جھرنے گرتے ہیں‘کچھ دور شکرسازی کے کارخانے کے کھنڈر ہیں‘ وہاں سے دور تک گنے کے کھیت اور ان میں قطار در قطار بنے ہوئے پتھروں کے اہرام نظر آتے ہیں‘ اس جگہ ساحل سے پرے کئی جزیرے بھی ہیں‘ وہاں جانے والی کشتیوں کے پیندے شفاف شیشے کے ہیں‘ ذرا تصور کیجئے کہ ان جھروکوں سے نیلے سمندر کی گہرائی کیسی نظر آتی ہوگی‘کھانے پینے کی عادات
ہر علاقے میں مختلف ہوتی ہیں ان عادات کو الفاظ کی خوبصورتی کیساتھ لکھ دیاجائے تو پڑھنے والا لطف اندوز ہوتا ہے‘رضاعلی عابدی اپنے سفرنامے میں ماریشس سے متعلق لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ شکر اس کثرت سے پیتے ہیں کہ بس چلے تو چمچے سے نہ ڈالیں بلکہ شکردانی سے انڈیلیں‘پھر خود ہی ہنستے ہیں‘شرمندہ ہوتے ہیں اور خود ہی کہتے ہیں کہ ماریشس میں شکر کا مرض بہت عام ہے‘ یہاں کے بندر بھی ذیابیطس کے مریض ہیں‘میرا خیال تھا کہ جس طرح زمین سے گنا ابلا پڑتا ہے‘ چاروں طرف پھیلے ہوئے نیلگوں سمندر سے مچھلی ساحل پر چڑھی چلی آتی ہو گی لیکن جب کئی روز کھانے پر مچھلی نہیں ملی تو
پتہ چلا کہ مہنگی بہت ہے‘ میرا خیال تھا کہیں اور چلی جاتی ہوگی‘ اس طرف نہیں آتی ہوگی لیکن ایک روز حال کھلا کہ ساری مچھلی غیر ملکی سیاح کھا جاتے ہیں‘ بڑے بڑے ہوٹلوں والے عمدہ مچھلی کے اتنے زیادہ دام لگاتے ہیں کہ مچھیرے شہروں کا رخ ہی نہیں کرتے‘شاید ان ہی کی سہولت کے خیال سے سارے بڑے ہوٹل سمندر کے کنارے بنائے گئے ہیں‘ ان کے کھانوں میں بریانی کا جواب نہیں‘ میں نے اس قسم کی بریانی ملا باری بریانی کے نام سے کھائی ہے۔ باسمتی چاول میں مرغی‘ گول آلو‘ انڈے اور ہرا دھنیا ڈالتے ہیں‘ غالباً قورمے کا مصالحہ ہوتا ہے اور مقدارمیں کافی ہوتا ہے اس لئے بریانی میں کچھ اورنہیں ملاتے۔ بس یوں ہی کھالیتے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت مزے کی ہوتی ہے۔ماریشس میں یہ بات سوا لاکھ روپے کی ہے کہ غریب ہوں یا امیر، شادی کی تقریب میں ایک یہی بریانی کھلاتے ہیں۔ یہی حال بچے کی ولادت‘ بزرگوار کی وفات‘ عرس‘ قرآن خوانی‘ مشاعرہ‘ محفل غزل اور قوالی کا ہے‘ ہمارے دوست عنایت حسین عیدن کہتے ہیں کہ یہاں ووٹ لینے کیلئے اور رشوت دینے کیلئے بھی بریانی کھلائی جاتی ہے۔بڑی بڑی دعوتوں کیلئے بریانی پکانے والے باورچی یہاں بھنڈاری کہلاتے ہیں‘ بعض بھنڈاریوں کی بڑی شہرت ہے کیونکہ وہ نہایت عمدہ بریانی پکاتے ہیں‘خراب بریانی پکانے والے کیلئے جزیرے میں کوئی جگہ نہیں‘سناہے کہ بریانی خراب ہوجائے تو بھنڈاری چپکے سے پچھلے دروازے کے راستے بھاگ جاتا ہے۔