کسی بھی علاقے شہر یاگاؤں میں جب آفت نازل ہو جائے تو ہر کسی کو اپنے بچاؤ کی فکر لاحق ہو تی ہے۔ ہونا بھی چاہئے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے ہاں اگر کسی کی سو چ اور طرزل عمل اس کے برعکس ہو تو یقینی طور پر نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ موجودہ دور کے مسائل اور مصائب میں انسان بلکہ نئے دور کے مہذب انسان کے ہاتھوں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے گھمبیر منفی اثرات ایک بہت بڑا چیلنج قراردیا جاتا ہے جیسے ہم گزشتہ سال ایسی ہی گھمبیر صورتحال سے دو چار ہوئے حد سے زیادہ بارشوں‘سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 30 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان کم از کم دو ہزار افراد کی اموات کی شکل میں بھاری جانی نقصان کیساتھ ساتھ انفراسٹرکچر زراعت اور لائیو سٹاک کی تباہی کے سبب ہم دنیا کے سامنے امداد کے لئے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوئے سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کیوں واقع ہو رہی ہے؟ یعنی درجہ حرارت یاگرمی بڑھنے کے سبب ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں بڑھتی ہوئی بے ترتیب آباد کے ہاتھوں بیسوں ماحولیاتی مسائل نے جنم لے لیا ہے‘ زراعت‘ باغات‘ سبزہ زاروں اور جنگلات کی جگہ شاپنگ پلازوں‘ مارکیٹوں‘ ورکشاپس‘ کالونیوں جبکہ گاڑیوں کی بھر مار نے لے لی ہے جن میں نصف سے زائد قابل استعمال بھی نہیں ہوتیں مگر کیا کہئے کہ پوچھ ہے نہ گچھ اور نہ ہی کوئی روک ٹوک‘ یہ سب کچھ محض زیادہ پیسہ کمانے کے حرص کے ہاتھوں ہم نے اپنے اوپر مسلط کر دیا ہے‘ ماضی قریب کی بات ہے کہ شہر اور دیہاتوں کے درمیان ایک واضح فرق ہوا کرتا تھا اور اسے محسوس بھی کیا جاتا تھا جو کہ اب نہیں رہا آپ کسی بھی شہر سے کسی بھی دیہی علاقے کی طرف نکلیں تو دوسرے شہر پہنچنے تک درمیان میں آپ کو دیہی علاقے کے کوئی آثار اور مناظر نہیں آئیں گے ماحول کو قدرتی اصولوں کے مطابق متوازن رکھنے میں تعلیمی اداروں بالخصوص جامعات کابھی ایک خاص کردار تھا جس میں قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی سرفہرست تھی مگر صدافسوس کہ گزشتہ ایک عرصے سے اتنی کشیف اور ماحول دشمن ہوئی ہے کہ کس بھی درد دل رکھنے والے بہی خوا کیلئے ایک صدمے سے کم نہیں اس کی وجہ صاف ظاہر ہے یعنی پیسہ کمانے کی لالچ اور ہر درجہ بدانتظامی کسی بھی یونیورسٹی میں رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے اڈے آپ کو کہیں بھی نظر نہیں آئیں گے تہہ بازاری کاکیا کہئے؟ ون ویلنگ سکریچنگ اور ریس کی لت کو روکنے والا بھی کوئی نہیں رہا باعث حیرت امر یہ ہے کہ کیمپس کے اندر چلنے اور ٹھہرنے والی پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور بے تحاشا رکشوں میں نصف سے زیادہ قابل استعمال ہی نہیں مگر ایسا کوئی بھی سامنے نہیں آتا کہ ان سے فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب کرے؟ مبینہ طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں بعض یونیورسٹی ملازمین اور زیادہ عرصہ کیمپس میں تعینات رہنے والے پولیس اہل کاروں کی ہیں؟ ایسا بھی ہو تو کیا ایسے لوگ قاعدے اور قانون سے بالا تر اور ماحول دشمنی کے لئے آزاد ہیں؟ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کی یہ گھمبیر حالت پشاور ٹریفک پولیس سے بھی اوجھل ہے کیا یہ پولیس کا فرض نہیں بنتا کہ یونیورسٹی کیمپس آ کر ان ناقابل استعمال گاڑیوں اور سینکڑوں رکشوں کے ہاتھوں جن میں ناقابل استعمال ٹوسٹروک بھی شامل ہیں ماحول کو بربادی سے بچا لیں؟باعث حیرت امر تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ملازمین بالخصوص اساتذہ اپنے ذاتی اور کمیونٹی کے مفادات کی خاطر تو ڈیڑھ مہینے تک سڑک پر بیٹھ سکتے ہیں لیکن یونیورسٹی کے ماحول کی بربادی کا انہیں کچھ بھی احساس نہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ یونیورسٹی میں حقیقی معنوں میں تعلیمی ماحول کے قیام کے لئے کوئی باہر سے آ کر یہ فریضہ انجام دے گا؟۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے