مشہور مصنف اور اہم عہدوں پر فائز رہنے والے قدر ت اللہ شہاب نے اپنی سرگزشت میں جو واقعات بیان کئے ہیں،وہ جہاں پڑھنے میں دلچسپ ہیں وہاں ان میں درس و عبرت کا سامان بھی ہے۔ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ جہاں تک چھوٹی صنعتوں کا تعلق ہے‘اس زمانے میں پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں اور آرٹ سلک کی گرم بازاری تھی جسے دیکھو اسکے سر میں پاور لوم کا پرمٹ حاصل کرنیکا سودا سمایا ہوا تھا، ہمارے محکمے نے اس سلسلے میں تھوڑی بہت کوشش بھی کی‘لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی‘پاور لوم کے پرمٹ مانگنے والوں کا زیادہ زور پانچ پانچ پاور لوم حاصل کرنے پر تھا اس کیساتھ انہیں کافی مقدار میں آرٹ سلک یارن کا امپورٹ لائسنس مل جاتا تھا‘ جسے بلیک مارکیٹ کرکے خاطر خواہ منافع کمایا جاسکتا تھا۔ اس سارے عرصہ میں فقط ایک پرمٹ ایسا تھا جومیں نے اس قسم کی سفارش یا دباؤ کے بغیر جاری کیا تھا ایک روز ہمارے ممتاز ادیب اور دانشورمسٹر اے حمید مجھے ملنے آئے‘پاور لوم کی کرشمہ سازی کا چرچا سن کر انہیں بھی اس لائن میں قسمت آزمائی کا خیال آیا میں نے بڑی خاموشی سے انہیں پرمٹ دے دیا دوڈھائی ماہ بعد وہ پھرمیرے دفتر آئے اور بولے اس کاروبار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے یہ کہہ کر انہوں نے پرمٹ مجھے واپس کردیا اسکی دلنشین تحریروں کی طرح اس صاحب طرز ادیب کا کردار بھی اتنا صاف اور بے داغ تھا کہ اس نے اپنے پرمٹ کو بلیک مارکیٹ میں بیچنا بھی گوارانہ کیا۔“ اس مختصر اقتباس کا حاصل مطالعہ یقینا معاشرے میں مضبوط کردار کے حامل افراد کی موجودگی کی اہمیت ہے، جو ایک چراغ کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی روشنی سے دوسرے بھی استفادہ کرتے ہیں، دیکھا جائے تو ہمارے درمیان ایسے افراد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں یعنی بہت کم ہیں۔