مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر اشفاق احمدکا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جن کی تحریروں کو قارئین میں اس لحاظ سے مقبولیت حاصل ہے کہ وہ ایک طرف تو پرانی یادوں کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرتے‘ اور ساتھ درس و عبرت کا ایسا سامان بھی مہیا کرتے کہ پڑھنے والا اس کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایک مقام پر اشفاق احمد اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ایک زمانے میں میں ایک پرچہ رسالہ نکالتا تھا ماہنامہ”بڑا خوصورت رنگین”داستان گو“ اس کا نام تھا۔ہماری مالی حالت درمیانی تھی‘ لیکن اس پرچے کو نکالنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ کیونکہ وہ لوگوں کو بہت پسند آگیا تھا تو اتنے پیسے نہیں تھے تو میں ایک دفعہ اس کا کاغذ خریدنے کیلئے گیا کاغذ کا ایک رم خریدا تو میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا کہ میں اس کاغذ کے رم کو کسی تانگے میں کسی رکشہ میں یا کسی ریڑھی میں رکھ کے لے آتا تو میں نے کاغذ کا رم لیا اس کو دوہرا کیا اور گندھے پر رکھا لیا بائیسکل میں چلاتاتھا بڑی اچھی بائیسکل تھی میرے پاس‘ تو میں سائیکل پر سوار ہوگیا اور جب چلا تو انارکلی میں اس وقت بھی خاصا رش ہوتا تھا تانگے آرہے ہیں‘ ریڑھے آرہے ہیں سائیکلیں اور جو بھی کچھ اس زمانے کی ٹریفک تھی وہ چل رہی تھی تو کرنا خدا کا کیا ہوا کہ وہ کاغذ کا رم جو ہے اسکے جو بیٹن لگا ہوا ہوتا ہے اوپر کا مضبوط خاکی کاغذ وہ پھٹ گیا اور پھرد یکھتے دیکھتے چھر۔ر۔ر۔ر۔رکرکے پانچ سو کاغذ جو تھے وہ ساری انارکلی میں پھیل گئے اور ادھر سے آنے والے جو تانگے تھے اسکے پہیے ظاہر ہے گیلے ہوتے ہیں ایک کاغذ لپیٹ ر چر۔ر۔ر۔ر‘ اور میں دیوانوں کی طرح بھاگ بھاگ کر کہتا ذرا تانگہ روکو ایک کاغذ وہ لے گیا ایک کاغذ وہ لے گیا تو پھر بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا میں نیچے بیٹھ گیا اور کاغذ اکٹھے کرنے لگا کہ جتنے بھی بچ جائیں اتنے ہی غنیمت تھے آہستہ آہستہ جتنے بھی کاغذ بچ سکے کچھ تین سو ساڑھے تین سو ان کو میں نے اکٹھا کیا لپیٹا کسی شخص نے مجھے وہاں ایک چھوٹا ساستلی کا ٹوٹا دیا وہ میں نے باندھا اورباندھ کے پھر اسے کندھے پر رکھ کر چلا توپھر مجھے اپنی زندگی کے اوپر‘ اور اس حالت کے اوپر اور ہتک عزت کے اوپر‘ اور دلت کے اوپر‘ جو سب لول تماشا دیکھ رہے تھے اور میں جھک جھک کے وہاں سے کاغذ اکٹھے کر رہا تھا بڑی شرمندگی کا بھی احساس ہوا اور ندامت تو تھی ہی‘ ساتھ نقصان کا بھی دکھ تھا‘ جب یہ اکٹھے کرکے میں گھر آا رونی صورت بناکے تو میں نے یہ سارا واقعہ اپنی بیوی سے بیان کیا یہ واقعہ گزر گیا کئی سال بیت گئے تو میں نے بھی اپنا ایک البم تیار کرلیا دکھوں کے البم ساروں کے پاس ہوتے ہیں تو میں نے بھی اس البم میں یہ واقعہ جو چھوٹا ساتھا اور اگرچہ اتنا اہم نہیں رہا تھا کہ شامل کیا جاتا تو میرے بچے اسے پڑھنے لگے جب میرا پہلا بیٹا آٹھویں نویں میں پہنچا تو میں نے اسے کہا تمہیں پتہ نہیں ہم نے کس مشکل سے وقت گزارا ہے میں نے اور تمہاری ماں نے کتنی محنت کی ہے اور کن دکھوں سے اور کن مشکل راہوں سے گزرے ہیں ایک دفعہ میں اپنا کاغذ خریدنے گیا اور میں اسے انارکلی میں کندھے پر رکھ کے‘ اور میرا بیٹا حیرانی سے دیکھ رہاہے اسکے دل پر بڑا عجیب سا اثر ظاہر ہے ہوا ہوگا تکلیف وغیرہ‘ لیکن وہ اس کی نظروں میں ایک ہیرو بن گیا اور میں خود بھی اپنے آپکو ایک ہیرو سمجھتا گیا کہ دیکھو کن مشکلات اور حالات اور کیسے تکلیف دہ اوقات سے گزرا ہوں یہ نہایت گھٹیا بات ہے جو آپ کرتے ہیں اور جسکے ساتھ میں بھی شامل ہوں کیا ہوا اگر ایک چھوٹا سا ذرا تکلیف دہ وقت آیا اور تم نے اس کو اتنا پھیلا کرکے اس کو پورا وہ جو کیا ہوتی ہے پینوراما سکرین کے اوپر سنانا شروع کر دیا اس کو بند ہونا چاہئے۔“ اس متنخب اقتباس کا حاصل مطالعہ بڑے لوگوں کا بڑا حوصلہ اور برداشت ہے جو مشکلات سے بد ظن ہونے کی بجائے ان سے سیکھتے ہیں اور ان مسائل اور مشکلات کواپنے لئے مشعل راہ بنا لیتے ہیں۔ جو واقعات ہمارے ساتھ یا گردوپیش میں رونما ہوتے ہیں ان کا مشاہدہ اگر بنظر غائر کیا جائے تو ان کے ذریعے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے لئے تیاری اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔