ایک جواب طلب سوال

یونیورسٹی ماڈل سکول کی ایک تقریب میں جب وائس چانسلر نے اپنے خطاب کے اختتام پر شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی ماڈل سکول اور جامعہ کی کارکردگی کمزوری یا غفلت کے بارے اگر کسی کا کوئی سوال ہو تو وہ جواب دہی کیلئے حاضر ہیں‘پنڈال میں سے ایک خاتون نے جرات اور متانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ وہ اپنے اہل و عیال کیساتھ یونیورسٹی کیمپس میں رہائش پذیر ہیں مگر اب کچھ عرصے سے یوں محسوس کر رہی ہیں کہ گویا یونیورسٹی کیمپس اب ایک جامعہ یا جامعات کا ماحول نہیں رہا بلکہ ایک پبلک ٹرانسپورٹ اڈے یا پرہجوم منڈی میں تبدیل ہو گیا ہے ہر طرف رکشے‘ پرائیویٹ گاڑیاں ٹیکسی پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں جگہ جگہ سٹینڈ اور پارکنگ ون ویلنگ‘ ریس‘ سکریچنگ‘ شور و غل تیز رفتاری‘ پریشر ہارن بعض سیاسی جماعتوں کی طلباء تنظیموں کی ہلڑی بازی بلکہ جھتہ بازی‘ ٹریفک جام‘ تہہ بازاری اور صفائی کی ابتر حالت نے یونیورسٹی کیمپس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی نے اپنے تدریسی شعبہ جات میں آنیوالی پرائیویٹ گاڑیوں کیلئے سڑک کی دونوں جانب فٹ پاتھ پرقبضہ کرکے پارکنگ قائم کر دی ہے جس کے ہاتھوں یونیورسٹی ماڈل سکول کی بچیاں آمد و رفت میں روزانہ اذیت اور خطرے سے گزرنے پر مجبور ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے چپ سادھ لی ہے وائس چانسلر نے اپنے طور پر جواب دیتے ہوئے خاتون کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ موصوف کا کہنا تھا کہ ماحول کو بہتر بنانا محض انتظامیہ کاکام نہیں بلکہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے میرے نزدیک یہ جواب اس لئے بھی معقول اور مناسب نہیں تھا کہ بلا شبہ یہ یونیورسٹی انتظامیہ اور کیمپس پولیس کی ذمہ داری ہے جس کی انجام دہی سے تاحال دونوں قاصر ہیں میرا سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی اگر کسی قاعدے ضابطے کے تحت چلتی  ہے اور من مانے طریقہ کار کی کوئی گنجائش نہ ہو تو پھر یونیورسٹی کیمپس نے جنرل بس سٹینڈ کا روپ کیوں دھار لیا ہے؟ مانا کہ زرعی یونیورسٹی اسلامیہ کالج‘ انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں آنے والی گاڑیاں بھی پشاور یونیورسٹی کو ایک سٹینڈ یا اڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر اس کی روک تھام اور اس گھمبیر مسئلہ بلکہ ماحول دشمن روش کے انسداد کے لئے پشاور یونیورسٹی انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟ یونیورسٹی کیمپس میں مشترکہ مسائل کے حل کے لئے چاروں وائس چانسلروں اور انتظامیہ کے افسران بمعہ پولیس پر مشتمل کیمپس کوارڈی نیشن کمیٹی بھی قائم ہے جس کے ماضی میں اجلاس ہوتے رہے اور کارکردگی عیاں تھی مگر اب اس کا وجود اور کارکزاری کہیں پر بھی محسوس نہیں ہو رہی ہے‘ سوال یہ ہے کہ کیمپس کی دوسری جامعات پشاور یونیورسٹی کواڈے کے طورپر آخر استعمال کیوں کر رہی ہیں؟سوال یہ ہے کہ کیمپس میں چلنے والے رکشے اور یہاں پر آنے والی پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں تمام فٹ اور سروس کے قابل ہیں؟ کیا ان رکشوں اور گاڑیوں سے یونیورسٹی انتظامیہ نے فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیمپس کی ضرورت کے مطابق بیس پچیس فورسٹروک رکشوں کی بجائے یہ بے شمار ٹو سٹروک اور فورسٹروک رکشے کس کی اجازت سے چل رہے ہیں؟ ون ویلنگ ریس اور سکریچنگ کے لئے باہر سے شہر ناپرسان میں آنیوالی کتنی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کو تھانے میں بند کر دیا گیا ہے؟ تہہ بازاری‘ بھکاری اور کم عمر مہاجر لڑکوں کے جھتوں کوٹھکانے لگانا کس کی ذمہ داری ہے؟ آیا انتظامیہ اور پولیس نے ان رکشوں اور گاڑیوں کی چیکنگ اور ا سے شناختی کارڈ، لائسنس اور رجسٹریشن کے بارے میں کبھی کوئی پوچھ گچھ ضروری سمجھی ہے؟ پشاور یونیورسٹی کے ہر چوراہے بالخصوص روڈ نمبر2 کے ہر چوک پر بسوں میں پریشر ہارن کے استعمال کی عادت بلکہ ضد کی روک تھام کس کا کام ہے؟ اور اب تو چلتے چلتے بالاخر ٹک ٹاکر بھی پشاور یونیورسٹی پہنچ گئے جن کی ویڈیو آئے روز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا معمول بن گیا ہے مگر روکنے اور پوچھنے کا کوئی انتظام نہیں‘ ایسے میں ماڈل سکول کی تقریب میں جامعہ کے انتظامی سربراہ سے ہونیوالا سوال محض ایک خاتون کا سوال نہیں بلکہ ہر ذی شعور سنجیدہ اور تعلیمی ماحول کے بہی خواہ فرد کا سوال ہے جس کی جواب دہی یونیورسٹی انتظامیہ اور کیمپس پولیس کی اخلاقی پیشہ ورانہ اور قانونی ذمہ داری ہے۔