(روزنامہ آج میں شائع ہونےوالے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
میں چھٹی جماعت میں تھا کہ سکول کے بعد ایک پینٹر کے باریک لکھے لفظوں میں رنگ بھرنے کا کام کرتا تھا۔کالج میں داخل ہوا تو صحافت شروع کردی تھی۔ایک روزہم جماعتوں نے ہر طالب علم کے لئے یہ شرط رکھی کہ سبھی اپناایک ایک شعر سنائےں گے۔ جو شعر نہیں سنائے گا وہ ساری کلاس کو چائے سموسے کھلائے گا۔اور پھرسبھی نے شعر سنا دئےے مگر میری اس دور کی آدھی تنخواہ چائے سموسوں پر لگ گئی کیونکہ مجھے تو شعر کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی۔کچھ روز بعد پھر وہی چیلنج در پیش تھا۔ اب تو شعرنہ سنانے والے کے لئے پیٹھ پر مکوں کی سزا بھی شامل تھی۔وہ شعر سنانے کا دن تھا،میں سیڑھیاں اتررہا تھا کہ ایک سر سراہٹ سی ہوئی یوں لگا جیسے خوشبو کا جھونکا سا مرے اندر سرایت کر گیا‘بس اسی لمحے میرے ذہن میں دو مصرعے آئے۔
مرے قریب سے ہو کر وہ نا گہا ں گزرے
حسیں حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے
میں نے فوراًکلاس میں جا کر وہی شعر سنادیا۔یوں زندگی کا پہلا اور آخری شعر کہا۔صحافت کے میدان میں میرا بہت سے نامور ادباء،شعرا ءسے واسطہ رہاہے۔فیض ‘فراز سے لےکر صوفی تبسم‘احسان دانش‘ ناصر کاظمی‘ اشفاق احمد ‘اے حمیدجیسے اہل قلم سے ملاقاتیںرہیںآج اس مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے۔میزبان خالد شریف نے مجھے اس سیٹ پر بٹھا دیا ہے۔ضیا ءشاہد شعراءکے درمیان گفتگو کر رہے تھے۔یوم پاکستان کے حوالے سے مشاعرہ میں ممتاز شعرا ءنے شرکت کی اس نشست میں خواتین شعراءکی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ تھی۔میزبانی کے فرائض نامور شاعر خالد شریف کر رہے تھے۔انہوں نے اپنے اشعار سے مشاعرے کا آغاز کیا۔فراست بخاری بزرگ تخلیق کار ہیں۔ مشاعروں میں مختصر مگر موثر کلام سنا کر خوب داد وصول کرتے ہیں اس مشاعرے میں یا ر عزیز تاثیر نقوی نے بھی اپنا کلام پیش کیا ،ایک زمانے تک وہ متحرک رہے پھر پیشہ ورانہ مصروفیات کے سبب ادبی تقریبات سے دور ہوگئے مگران دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا اکثر تقریبات میں دکھائی دیتے ہیں۔ان کے ہمراہ توقیر شریفی‘ حکیم ملک سلیم اختر بھی ہوا کرتے ہیں۔دونوں نے اچھی شاعری پیش کی، بالکل اپنے اقبال راہی کی طرح جو فی البدیہہ شعر کہنے میں ےدطولیٰ رکھتے ہیں۔یہاں بھی سٹیج پر بیٹھے ہوئے ،ضیا شاہد،خالد شریف اور راقم کے لئے انہوں نے قطعہ پیش کیا۔دانش عزیز ‘وسیم عباس‘ فیصل پرویز‘عرفان صادق‘ جواز جعفری ‘فاخرہ انجم ‘نسیم خان سیما‘ پروین وفا‘روحی طاہرہ ‘شازیہ مفتی‘ شاہدہ دلاور شاہ‘ غافر‘ شاہینہ کشورنے بھی مشاعرے میں اپنا اپنا کلام پیش کیا۔اب مشاعرے محض مشاعرے نہیں ہوتے یہاں باقاعدہ سیلفیوں اور گروپ فوٹو بنانے کا دور بھی چلتا ہے۔اور پھر ہر شخص اپنے اپنے موبائل سے تصاویر لےکر فیس بک پر اَپ لوڈ کرتا ہے اس طرح ہر تقریب کی گونج دو تین روز تک فیس بک پر ”گرم “رہتی ہے۔ تقریبات کے آخر میں سیلفیوں کےساتھ ساتھ کتب یا پھول پیش کرنےکی تصاویر بھی بنوائی جاتی ہےں۔فیس بک کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہر شخص آناً فاناً مشہور ہو جاتا ہے۔اب ادبی جرائد ‘رسائل یا اخبارات میں اپنی نگارشات چھپوانے کی بجائے یار لوگ فیس بک پر غزل احباب کو ”ٹیگ“ کرتے ہیں اور لائیکس اور کمنٹس گنتے رہتے ہیں‘جو غزلیں کم کہتے ہیں ،وہ تصاویر اور سیلفیوں سے ”فیس بک“ کے بازار میں نمایا ں دکھائی دیتے ہیں۔بہرحال یہ تبدیلیاں تو وقت کےساتھ ساتھ آتی رہتی ہےں۔ اس طرح یہ مشاعرہ ایک یاد گار مشاعرہ بن گیا ،یہاں بہت سے احباب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔