مشہور معالج اور کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد حفیظ اللہ لکھتے ہیں کہ کسی نے حال ہی میں ملازمت سے ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ سے پوچھا کہ ملازمت کے دوران اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے آپ کے پاس چند لمحات گذارنے کی فرصت نہیں ہوتی تھی اب ریٹائرمنٹ کے بعد کیا مصروفیات ہیں؟اس دلچسپ سوال کا سادہ لفظوں میں انہوں نے یوں جواب دیا کہ ”میری صبح کا آغاز پوتے کی کلکاریوں سے ہوتا ہے اور دن کا اختتام تب ہوتا ہے جب وہ دن بھر اودھم مچانے کے بعد تھک ہار کر بستر پہ جاسوتا ہے“زندگی کے روز و شب کی مصروفیات عمر کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں اور انسان کی ترجیحات بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ سارا دن پوتوں سے گپ شپ کرنے انہیں گھر سے باہر لے جانے شاپنگ کرانے ان کے ساتھ ہوم ورک کرنے اور کہانیاں سنانے میں گذرجاتا ہے۔ اس ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی زندگی بھی اپنے چار سالہ پوتے کے ساتھ منسلک ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ میری اپنی کہانی ہے۔ میری والدہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے داداکے ساتھ پوتے کو زیادہ فری نہ ہونے دے لیکن اس کے باوجود میرے بیٹے کو اپنے دادا آغا جی کے ساتھ والہانہ محبت تھی جو آج بھی ان کی یادوں کا سرمایہ ہے۔ وہ دادا ہی تھے جس نے اسے فطرت سے آشنا ہونے میں مدد اور رہنمائی کی۔ ان کے لئے پھول اور پھل ہی نہیں لاتے تھے بلکہ گھر کو ان کے لئے باغ بنا دیا تھا۔ جہاں جانور بھی تھے اور پرندے بھی۔ دوسرے بچوں کی طرح اسے بھی برقی آلات میں دلچسپی تھی۔بجلی کے سوئچ میں ہاتھ ڈالنے کو اس کا من کرتا۔ دادا نے اسے مصروف رکھنے کے لئے ایک بڑا بورڈ لاکر دیدیا۔ دادا اور پوتے کی گفتگو بھی بہت دلچسپ اور انتہائی غیر سنجیدہ ہوتی تھی بیٹا ہماری گود میں کم ہی ٹھہرتا تھا۔ دادا کے آتے ہی ہماری گود سے اچھل کر ان کی گود میں جا بیٹھتا تھا دادا جب اذان دیتا تو ان کے ساتھ اذان کے الفاظ دہرانے لگتا۔ آغا جی جب پوتے کو کہانیاں سنانے لگتے۔ تو وہ پوری توجہ سے دادا کی زبان سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو غور سے سنتا اور دل میں بٹھادیتا۔حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہر نعمت اپنی جگہ انمول اور بیش قیمت ہے لیکن پوتوں کا کوئی نعم البدل نہیں یہ واقعی انمول نعمت ہے وہ انسان کے لئے تسکین طمانیت اور خوشی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ وہ زندہ کھلونے ہوتے ہیں ان کی توتلی زبان میں دلچسپ باتیں سن کر انسان کے چہرے پر جو مسکراہٹ آتی ہے اس کا کوئی بدل نہیں۔ پوتوں کی دیکھ بھال کرنا بزرگوں کے لئے ’مشغلہ‘ہوتا ہے جبکہ والدین کے لئے یہی کام فرض منصبی ہے ایک دادا کے لئے اپنا وقت گذارنے کا اس سے بہتر کیا مشغلہ ہوگا کہ اپنے نازک، صاف ستھرے اور شرارتی پوتے کو کھلاتے رہو اگر اس کا موڈ روہانسی ہونے لگے تو اس کی والدہ کے سپرد کردو۔عمر کے ساتھ پوتوں کا مزاج، ضروریات اور فرمائشیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ اس لئے داد ا کوبھی پوتے کی بدلتی فرمائشوں کو پورا کرنے کے لئے خود کو بدلتے رہنا پڑتا ہے۔ گود میں پلنے والے شیر خوار کا موڈ کچھ اور ہوتا ہے۔ سکول جانے کی عمر کے بچے کا مزاج پھر مختلف ہوجاتا ہے۔ اگر عمر نے یاری کی اور اپنے پوتے کو کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملے تو دادا کی حیثیت پوتے کے لئے ایک دوست کی ہوتی ہے۔ پوتے کا پہلا مضمون لکھوانا، پہلی تقریر کی تیاری کرانا، کالج میں پہلا دن، پہلی دوستی ہر چیز ایک چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لئے وہ سب سے پہلے دادا سے ہی رجوع کرتا ہے۔مصروفیات کے اس دور میں والدین اپنے بچوں کے لئے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں۔ سکول کی تقریب‘ یوم والدین‘ نتائج نکلنے کے دن اور دیگر مواقع پر دادا ہی اپنے پوتے کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اس کی ہر کامیابی میں حصہ دار اور ہر ناکامی پر حوصلہ دینے والا ہوتا ہے۔ یہ دادا ہی ہوتا ہے جو اپنے پوتے کو ماں باپ کے سامنے کبھی نہیں ڈانٹتابلکہ اسے شاباشی دیتا اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بزرگوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کی روزمرہ زندگی کی مصروفیات میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔ خواہ وہ ہوم ورک ہو، کھیل کود ہو یا وڈیو گیم کھیلناہی کیوں نہ ہو۔اس سے نہ صرف بچوں کو حوصلہ ملتا ہے بلکہ بڑوں کا اپنا دل بھی بہل جاتا ہے۔اہل مغرب کا ماننا ہے کہ اگر بزرگ بچوں کے لئے رول ماڈل بننا چاہتے ہیں تو انہیں بچوں کے ساتھ بچہ بن کر رہنا چاہئے۔ بچے فطری طور پر پندونصائح سے نالاں ہوتے ہیں۔ اس لئے بڑا ہونے کا رعب جمانے کے لئے بچوں کو لیکچر دینے کی حماقت کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ ان کے دکھ درد‘ اور غمی خوشی میں دوست بن کر شریک ہونا چاہئے۔ بچے انعام کے بہت شوقین ہوتے ہیں وہ انعام پانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں وہ انعام میں کوئی بہت قیمتی چیز نہیں مانگتے‘ حوصلہ افزائی کے دوبول‘ گھمانے لے جانا‘ ان کے پسند کے ہوٹل میں کھانا کھلانا‘کوئی کتاب انعام میں دینا بھی ان کے لئے بڑی بات ہوتی ہے۔ بزرگوں کے لئے خود بھی بچوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن کر اپنے بچپن کی یاد تازہ کرسکتے ہیں۔آج کل کے بچوں کے پاس کھلو نوں کی شکل میں جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے جن سے بزرگوں کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں جانکاری کے مواقع ملتے ہیں اگر بچوں کے ساتھ گپ شپ کا کوئی دلچسپ موضوع نہیں ہے تو کیا ہوا۔ اپنے پرانی یادیں تازہ کرنا شروع کردیں بچے ہمہ تن گوش ہوکر آپ کو نہ صرف سنیں گے بلکہ آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کردیں گے آپ انہیں بتاسکتے ہیں کہ بچپن میں کونسی چیز آپ کو بہت پسند تھی، کس چیز سے ڈرتے تھے۔ان کے والد کب پیدا ہوئے، بچپن میں کیسے تھے۔ کس چیز کے لئے ضد کرتے تھے۔ بچپن میں کیا چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا زندگی میں کیا برا دیکھا سب سے اچھی کونسی بات لگی کس قسم کے کھلونے پسند تھے کھیل کود اور ہنسی مذاق کیسے ہوتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دادا بن جانا ایک نعمت ہے اور زندگی کے اس رنگ سے بھرپور لطف اٹھانا چاہئے انسان کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اس کے ہاتھوں میں کھیلنے والے بچے اس کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوجائیں۔ خاندان کی زندگی کا یہ سفر اگرچہ حیرتوں اور چیلنجوں سے بھر پور ہے لیکن یہ زندگی کا سب سے عظیم اور انمول انعام بھی ہے۔“اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ وہ احساسات ہیں جن کے اظہار کی قوت کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے اگرچہ یہ احساسات ہر اس شخص کے دل میں موجزن رہتے ہیں جو زندگی کے اس مرحلے میں ہوتے ہیں جس کا تذکرہ لکھاری نے اپنی تحریر میں کیا ہے۔