حقیقی مفلسی اور تونگری کیا ہے ، اس سوال کا جواب ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب”بصیرت “ میں دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”بلاشبہ ہوس انسان کو مفلس بنادیتی ہے اور مفلسی صرف دولت کی کمی کا نام نہیں یہ ایک ذہنی کیفیت کانام ہے مفلسی کی بذات خود بہت سی قسمیں ہیں مفلسی اظہار کی بھی ہوتی ہے کہ انسان علم و فضل کے باوجود اظہار کی قوت نہ رکھتا ہو مفلسی کردار کی بھی ہوتی ہے کہ انسان اخلاص اور وعدہ ایفائی سے محروم ہو‘ دولت‘ عہدہ‘ شہرت یا دنیاوی مقام ملنے پر پرانے دوستوں سے کنی کترانے لگے اور اس کےانداز و اطوارسے تکبر ٹپکنے لگے یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے افلاس کی یہ ساری قسمیں اور ان کی عملی مظاہرے دیکھے ہیں اور اب بھی دیکھ رہا ہوں مطلب یہ کہ امارت تو انگری اور دولت مندی اس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب انسان قناعت کر لے ہوس سے آزاد ہو جائے دولت کا بجا اور جائز استعمال کرنے لگے کیونکہ دولت کے ناجائز استعمال سے قلب و روح کثیف ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسی جسمانی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو انسان کو ذہنی کیفیت کے حوالے سے بے بس بنا دیتی ہے جبکہ اسی امارت کے فلاحی استعمال سے انسان کو باطنی مسرت اور قلبی خوشی حاصل ہوتی ہے جو قلب اور روح کی روشنی کو بڑھاتی ہے اس موقعہ پر مجھے گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک سابق بلکہ مرحوم پروفیسر صاحب یاد آرہے ہیں جو اگرچہ کالج میں میرے استاد نہیں تھے لیکن ان کی شفقت کے سبب ان سے تھوڑی سی دوستی ہوگئی تھی میں لاہور میں ایک تربیتی ادارے میں تعینات تھا اور وہ سرکاری نوکری سے ریٹائر ہو چکے تھے انہوں نے محنت اور بچت سے چھوٹا سا گھر بنالیا تھا اور ایک پرانی سی کارخرید لی تھی مطالعہ بہت کرتے تھے اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی رکھتے تھے دو بچے تھے جنہیں انہوں نے دوران ملازمت ہی بیاہ دیا تھا مجھے ان کی یہ ادااکثر یاد آتی ہے کہ وہ میرے پاس تشریف لاتے کچھ دیر کتابوں کی یا ادھر ادھر کی باتیں کرتے ادھر ادھر سے مراد ماضی کی یادیں جو اس عمر میں انسان کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے پونے ایک بجے اٹھ کھڑے ہوتے اور کبھی کبھار پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چند نوٹ باہر نکالتے اور کہتے کہ آج تو میں رئیس انسان ہوں میری جیب میں پچاس روپے ہیں چالیس روپے کا پٹرول ڈلواﺅں گا اور پانچ روپے کی اپنے نواسے کو قلفی لے کر دونگا وہ خوشی سے نعرہ مارے گا نانا جان زندہ باد‘ میرے پاس پھر بھی پانچ روپے بچ جائینگے اسکے بعد وہ مجھ سے ہاتھ ملاتے اور یہ کہہ کر رخصت ہو جاتے کہ مجھے نواسے کو سکول سے لینا ہے اب وقت ہوگیا ہے یہ درست کہ آج سے اٹھارہ برس قبل پچاس روپے کی قوت خرید آج کے ڈیڑھ یا دو سو روپوں کے برابر ہوگی لیکن میں نے ان پروفیسر صاحب کو جیب میں تھوڑے پیسے ہونے کے باوجود ہمیشہ رئیس‘ خوش اور امیر پایا کیونکہ انہیں نہ اپنے وسائل کی کمی سے گلہ تھا اور نہ ہی پیسوں کی قلت کا رونا‘ ان کا ذہنی کیفیت اس امیر اور رئیس شخص کی سی تھی جو اپنے آپ سے راضی ہو‘ رب کے دیئے پر شکرگزار اور مزید کی ہوس سے آزاد ہوا ‘ میری آنکھیں گواہ ہیں کہ میں نے ان کی شخصیت میں بڑے بڑے دولت مندوں سے زیادہ اعتماد‘ آن بان اور وقار دیکھا کیونکہ شخصیت کا وقار دولت‘ عہدے اور معاشرتی مقام سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ کردار کی عطا ہوتا ہے اور کردار خاصی حد تک ذہنی کیفیت سے متاثر ہوتاہے اور ذہنی کیفیت سے بنتا اور بگڑتا ہے۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ اگر چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے جس کسی نے اپنی خواہشات کو محدود رکھا اور وہ سہولت کے ساتھ انہیں پورا کررہاہے او رقناعت کی دولت سے مالا مال ہے تو وہ مفلس ہر گز نہیں بلکہ مفلس وہ ہے جو اپنی ان گنت خواہشات کی تکمیل میں اپنے آپ کو ہلکان کررہا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی ہوس نے اس کے سکھ اور آرام کو چھین لیا ہے ۔اگر ہر کوئی اس اصول پر کاربند رہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق اشیاءکے حصول میں ہی وقت لگائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ہلکان کرنے کی بجائے سکون اور آرام سے ہی زندگی کے دن بتائیں اور جس بے آرامی اور بے چینی نے ہمیں گھیرا ہے اس سے نجات ملے۔