مشہور معالج اور لکھاری ڈاکٹر عبیداللہ اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ پچھلے دو ماہ میں دو دفعہ ترکی جانے کا اتفاق ہوا دسمبر میں استنبول اور جنوری میں ازمیر میں قیام کیا استنبول اور ازمیر دونوں میں اس وقت ایک ایک ٹرام پر کام ہورہا ہے‘ استنبول چونکہ بہت گنجان آباد ہے اس لئے ٹریفک کا مسئلہ بڑھ کر تھا‘ استنبول آبنائے باسفورس کے گرد آباد ہے اور اسی لئے اسے دو بر اعظموں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ شہر کی ٹریفک پہلے ہی سے اتنی گنجان تھی کہ اب ٹرام کی تعمیر سے تقریباً رُک سی گئی ہے۔ تاہم کئی لوگ فیری اور کشتیوں کے ذریعے سے بھی آبنائے باسفورس کو پار کرکے شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آجاسکتے ہیں۔ میرے میزبان پروفیسر شریف تو کار استعمال ہی نہیں کرتے‘ ایک دن انہوں نے معذرت کی کہ شہر کے دوسرے ائرپورٹ سے اپنی بیگم کو لے کر آنا تھا۔موصوف صبح نکلے تو شام کو سات بجے پہنچے۔ معلوم ہوا کہ شہر کا دوسرا ائرپورٹ شہرسے ساٹھ کلومیٹر دور ہے اور سارے راستے ٹریفک رینگ رینگ کر ہی چلتی رہی۔جنوری میں ازمیر گیا تو اگرچہ وہ نسبتاً کھلا شہر ہے لیکن ٹرام وے کی تعمیر کی وجہ سے جگہ جگہ ٹریفک پھنستی رہی۔ میں نے ہنس کر اپنے میزبان پروفیسر ابراہیم سے کہا کہ لگتا ہے میں جہاں جاتا ہوں ‘ ٹرام وہیں پر پہلے سے پہنچا ہوتا ہے۔ پشاور سے لے کر اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی ‘ استنبول اور اب ازمیر میںمیں ہوں اور ٹرام کی تعمیر ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے کئی دفعہ شہریوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کئی جگہ لوگوں نے ٹرام کی تعمیر کے دوران تکلیفات کا ذکر کیا ‘ایک سمپوزیم جو بچوں کی حفاظت سے متعلق تھا‘ اچھے خا صے پڑھے لکھے دو تین لوگ کئی منٹ اسی با ب میں بولتے رہے‘ اگر چہ کئی جگہ میں نے بہت سے لوگوں کو تحمل سے کام لیتے ہوئے بھی دیکھا کہ چند ماہ کی بات ہے لیکن زیادہ تر افراد شکاےت ہی کرتے رہے ہیں۔ ہسپتال کے بارے میں تو شکایا ت کی بھرمار ہے۔ ڈاکٹر چائے پی رہے ہیں
اور مریض درد سے تڑپ رہے ہیں۔ بچوں کو سکول میں نہیں پڑھایا جارہا، پولیس چالان پر چالان کرتی جارہی ہے۔ میونسپلٹی سڑکوں پرسے گند نہیں اُٹھارہی ہے ۔ غرض اخبار اٹھائیں یا ٹی وی چینل کھولیں تو لگتا ہے کہ یہ ملک بس جہنم کا نمونہ ہے‘باقی دنیا عیش کررہی ہے‘بس ایک ہم بے چارے ہیں کہ ٹیکسوں پر ٹیکس دےئے جارہے ہیں اور حکومت ہماری سنتی ہی نہیں۔
دور کے ڈھول سہانے سے ملتے جلتے ہر زبان میں محاورے ہیں جیسے کہ انگریزی میں ہے کہ دیوار کے پارکی گھاس زیادہ سبز دکھائی دیتی ہے۔ اس
وقت امریکہ دنیا کا سب سے امیر ملک ہے جہاں ہر کسی کو مواقع دستیاب ہوتے ہیں‘ جمہوریت بھی ہے‘ پولیس بھی قاعدے اور قوانین سے واقف ہے‘ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ اسے گرین کارڈ مل جائے تو بس دونوں جہاں سنور جائیں گے‘ اب دل تھام کے پڑھئے۔ اس وقت امریکی شماریات کے مطابق چار کروڑ امریکی خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں‘ فلپ آلسٹن ایک آسٹریلین رپورٹر ہے جو اقوامِ متحدہ کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں غربت کے بارے میں تحقیق کرتا رہا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ امریکہ میں سروے کا فیصلہ کیا اور جو اسکے علم میں آیا وہ اسکے دماغ کو بھک سے اُڑانے کیلئے کافی تھا‘ لاس اینجلس جیسے شہر میں اس وقت پچاس ہزار افراد سڑکوں پر رہ رہے ہیں۔ اپنی ڈاکومنٹری میں اُس نے ایک منظر دکھایا جس میں ایک لمبی سڑک کے کنارے
بیسیوں ترپال لگے ہوئے ہیں جن میں بے گھر افراد سردی اور گرمی میں وقت گزاررہے ہیں۔ اس منظر کے دوسرے سرے پر مادہ پرستی کی دوسری حد یعنی آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ہیں جن میں بڑے بڑے بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کے دفاتر ہیں‘ اسی طرح نیویارک میں پانچ لاکھ شہری بے گھر ہیں اور خیرات پر پلتے ہیں‘ دولت کی تقسیم کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ کے تین سب سے امیر ترین افراد یعنی بل گیٹس‘ وارن بفٹ اور جیف بےہوز تمام امریکی دولت میں سے آدھے کے مالک ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ میں کوئی چارسو ارب پتی ہیں‘ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ عام امریکی کس قدر کام کرکے اتنا کمالیتا ہے کہ بس زندگی گزار سکتا ہے۔ اکثریت پر قرض کا ایک بوجھ ہوتا ہے جو کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔برطانیہ میں تو ہم خود کام کرکے دیکھ چکے ہیں۔ نرس اور اساتذہ کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کو مجبوراً دوسری نوکری کرنی پڑتی ہے اور یادرہے کہ شوہر
بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو گھر کا چولہا جلتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے مفت ہوتے ہوئے بھی بارہویں جماعت کے بعد مشکل سے بچوں کو یونیورسٹی کی تعلیم کی ہمت ہوتی ہے اور عام بچے جو ان یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں‘ وہ نہ صرف بینک سے قرض لے کر پڑھتے ہیں بلکہ ویک اینڈ یا شام میں چند گھنٹے کی نوکری کرکے کھانے پینے کی رقم کا بندوبست کرتے ہیں۔
ہمارے وہ ناشکرے لوگ جو سڑکوں پر گندگی کا رونا روتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ گند آیا کہاں سے ہے؟ ۔ یقین مانئے کہ اس وقت پاکستان میں جو زندگی ہے وہ کئی ممالک سے بدرجہا بہتر ہے۔ “ اس منتخب تحریر کا حاصل مطالعہ مقام شکر ہے ، جس کا احساس بہت کم ہوگوں کو ہوتا ہے اور ہمہ وقت گلے شکوے ہی ہمارے ہاں سننے کو ملتے ہیں،اگر ہم کھلے دل سے جائزہ لیں توہمیں احساس ہوگا کہ اب بھی بہت کچھ ہے جس کا شکر کرنا باقی ہے بس دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی دیر ہے ۔