فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سویلین مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں تو کورٹ ماشل ہوتا ہے، سویلین کےکیسزآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟ان مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ فریقین تیاری کرلے، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔
وکیل درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کیخلاف 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزموں کو ملٹری کے حوالے کیا گیا ہے۔
درخواست کے متن کے مطابق سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں نہیں چلائے جاسکتے ہیں۔ سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔
خیال رہے کہ 17 مئی کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ کو الم ناک قرار دیا اور قومی سلامتی کمیٹی نے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے اور اشتعال دلانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی تائید کردی تھی۔
علامیے کے مطابق شرکاء نے آئین کے مطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے شرپسندوں، منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرکے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے فیصلے کی بھی تائید کی۔
بیان میں کہا گیا کہ فورم نے واضح کیا کہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت فوجی تنصیبات اور مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔