پس ثابت ہوا کہ احتجاج اور نعرہ بازی اب کس کام کی نہیں رہی ‘ احتجاج چاہے دھرنے کی شکل میں ہو یاتالہ بندی جیسا دو ٹوک اقدام ہو‘ بہر صورت مطالبات منوانے اور مسائل کے حل کا طریقہ اور سبب نہیں بن سکتا‘ اگر ایسانہ ہوتا تو قدیم درسگاہ کے تمام ملازمین کی ڈیڑھ مہینے کی تالہ بندی ضرو ر رنگ لے آتی ‘ ایسے میں دوسری جامعات میں سے بعض نے ڈیڈ لائن دیدی ہے جبکہ بعض کے ملازمین احتجاجی ریلیوں کیلئے پرتول رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ حالات کیا رخ اختیار کر لیتے ہیں البتہ یہ بات واضح ہے کہ حکومت نے حسب روایت قومی بجٹ میں سرکاری ملازمین کےلئے ریلیف کا جو اعلان کیا ہے اس کے ہاتھوں یونیورسٹیوں کی مالی ابتری اور ملازمین کے اضطراب میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ ملازمین اپنی تنخواہوں اور مراعات میں ہونیوالے اضافے کے حصول کیلئے بے چین ہوں گے اور انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ سال کے اعلانیہ اضافے کے بقایا جات بھی تاحال واجب الادا ہیں ‘ ایسی ناگفتہ بہ حالت میں قدیم درسگاہ جہاں پر ملازمین کی طویل ہڑتال کے اثرات تاحال محسوس ہو رہے ہیں جامعہ کی انتظامیہ کی اس بات کا کیا جواب ہو سکتا ہے کہ مذکورہ ہڑتال کے سبب تدریسی شعبہ جات اور شعبہ امتحانات کی بندش نے یونیورسٹی کو40 کروڑ روپے کے مالی ضیاع سے دو چار کر دیا ہے اور یوں اب حالت یہ ہے کہ جون یعنی بجٹ والے مہینے سے یونیورسٹی اپنے ملازمین کو پوری تنخواہ دینے سے قاصر ہو جائے گی اب اس امر میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی ہے کہ بجٹ میں حسب ضرورت تعلیمی بجٹ بڑھانے کی بجائے ایک بار پھر تنخواہ اور الاﺅنسز میں قدرے اضافہ جامعات کی مالی مشکلات انتظامیہ اور ملازمین کے مابین جاری رسہ کشی اور چپقلش میں اضافے کا سبب بنے گا جامعات کے ملازمین میں سے بعض سنجیدہ اور معاملہ فہم لوگوں کا یہ سوال یقیناً جواب طلب ہے کہ جس وقت ملک میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد140 تھی تو تعلیمی بجٹ80 ارب روپے تھا اور اب جبکہ یہ تعداد200 کے قریب پہنچ چکی ہے تو 64 ارب کے بجٹ سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ اس گھمبیر صورتحال میں جس کا تاحال حکومتی سطح پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے بلکہ محسوس ہی نہیں کیا گیا جامعات کی انتظامیہ اور ملازمین کا ایک پیج پر ہونا ناگزیر تھا مگر کیا کریں کہ قدیم درسگاہ کے ملازمین اور انتظامیہ کی رسہ کشی مسلسل بڑھ رہی ہے اور ایک دوسرے کو مالی ابتری کےلئے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے‘ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومتی گرانٹ ملنے کی بجائے اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے گزشتہ قسط سے بڑی کٹوتی کرکے بیسک پے کی راہ ہموار کر دی جبکہ دوسری جانب ملازمین کی تالہ بندی نے یونیورسٹی کو400 ملین مالی نقصان سے دوچار کر دیا لہٰذا یونیورسٹی جو کہ مسلسل کوششوں سے مالی طور پر قدرے سنبھل گئی تھی ایک بار پھر اس حالت کو پہنچا دی گئی اب کہنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملازمین کا یہ موقف کہ یونیورسٹی کے لئے حکومت سے فنڈ اور گرانٹ کا حصول جبکہ مالی وسائل دھونڈنا ملازمین کا کام نہیں بلکہ انتظامیہ بالخصوص وائس چانسلر اورٹریژرر کی ذمہ داری ہے جامعہ کو مالی ابتری سے نکالنے میں کس قدر مدد گار ثابت ہو گا؟ میرے خیال میں تمام تر ذمہ داری انتظامیہ کے کندھوں پر ڈالنا مناسب نہیں ہو گا بلکہ کہنے کی بات یہ ہے کہ یہ ذمہ دای سب سے پہلے حکومت وقت اس کے بعد انتظامیہ اور پھر یونیورسٹی ملازمین پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے ‘ جہاں تک ڈیوٹی کام اور محنت یعنی احساس ذمہ داری فرض شناسی اور حصول رزق حلال کا تعلق ہے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کی ڈیڑھ مہینے ہڑتال کے دوران دو تہائی ملازمین اپنے کاموں میں لگے اور بعض اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور جب سے کام پر لوٹ آئے ہیں تو یہ سب تو نہیں مگر بعض کے پاس جا کر دیکھیں کہ ان کی میزوں پر چھ چھ اور آٹھ آاٹھ مہینوں سے پڑی فائلیں یا بل بھی نظر آئیں گے البتہ فرق صرف یہ ہو گا کہ وہ فائل اکثر یونیورسٹی ملازمین کی اپنی نہیں بلکہ باہر کے لوگوں اور فرمز وغیرہ کی ہوتی ہیں‘ دیکھنا شرط ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے