اب تو دنیا بھر کے سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ نریندرا،مودی اور ہٹلر کی پالیسیوں میںکچھ زیادہ فرق نہیں ۔بھارتی وزیر اعظم بھی ہٹلر کی طرح فسطائی ذہن کا مالک ہے۔ اس نے بھارت کے اندر تمام مذہبی اقلیتوں کے خلاف قتل و غارت کا جو بازار گرم کر رکھاہے اس سے اب ایک دنیا واقف ہو چکی ہے پر مقام افسوس ہے کہ اقوام عالم کوبھارت کے اندر جن سنگھیوں کی مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کاروائیاں نظر آ رہی ہیں اور نہ ان کے ہاتھوں عیسائیوں کا قتل عام ۔مودی نے تو ظلم اور بر بریت کے وہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں جو ہٹلر سے منسوب ہیں۔ اب چند دیگر اہم غور طلب امور کا اگر ذکر بے جا نہ ہوگا ۔وزیر مملکت پٹرولیم کا یہ بیان خوش آ ئند ہے کہ روس سے خام تیل کم قیمت پر ملا اور اس کا فائدہ عوام کو منتقل کریں گے ۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آذر بائیجان ہر ماہ پاکستان کو سستا ایل این جی کارگو فراہم کرے گا اور یہ کہ امریکہ سے گرین ہائیڈروجن اور امونیا لایا جائے گا۔ حکومت توانائی کا بحران ختم کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھا رہی ہے وہ قابل ستائش ہیں لانگ ٹرم میں تو زیادہ سے زیادہ ڈیموں کی تعمیرہی اس بحران کا واحد حل ہے پر تاوقتیکہ یہ ڈیم فنکشنل نہیں ہوتے کیونکہ ان کے مکمل ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں حکومت کو شارٹ ٹرم میں دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہو گی جیسا کہ سولر انرجی یا ونڈ پاور انرجی۔ امسال قومی بجٹ میں ملک میں سولر انرجی کے فروغ کے لئے حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ اس معاملے کی نزاکت سے آشنا ہے۔ اب ذرا ایک اہم عالمی سطح کے ایک مسئلے پر چند باتیں ہو جائیں۔ گزشتہ نصف صدی میں چین کی معاشی ترقی حیران کن ہے 1970 کی دہائی میں چین کی 90 فیصد آبادی سخت غربت میں رہتی تھی جبکہ 2018میں چین میں انتہائی غربت کی شرح صرف ایک فیصد رہ گئی۔2004 میں چین کی معیشت کا حجم امریکہ سے نصف تھا،دس برس بعد یعنی 2014
میں دونوں کا حجم برابر ہو گیا۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت کا حجم 23.3 کھرب ڈالرزہے جب کہ چین کا 17.7 کھرب ڈالرز ہے اور وہ دوسرے نمبر پرہے۔ برآمدات میں چین امریکہ سے آ گے نکل گیا ہے آج کل وطن عزیز میں ہر سوچ سمجھ رکھنے والا فرد یہ سوال پوچھتا ہے کہ پاکستان کو کس کے ساتھ عالمی امور میں کھڑا ہونا چاہئے۔ امریکہ کے ساتھ یا چین کے ساتھ ۔اس ضمن میں اس بات یا درہے کہ چین ہمارا وہ ہمسایہ ملک ہے کہ جو ہر مشکل کی گھڑی میں ہمارے کام آیا ہے۔ مندرجہ بالا سوال کا جواب دینے سے پیشتر درج زیل حقائق کو مد نظر ضرور رکھنا بھی ضروری ہے۔ امریکہ براہ راست جنگ کے بجائے درآمد اور برآمد میں اُتار چڑھاﺅ کے ذریعے چین پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ امریکہ کو ٹیکنالوجی اور فوجی استعداد میں چین پر برتری حاصل ہے جب کہ چین کو معاشی پیداوار اور اپنے حجم کا فائدہ مل رہا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے علاقائی اتحاد قائم کر رکھے ہیں۔ چین کا ہر شہری غربت کے دائرے سے نکل آیا ہے اور اس وقت چین کے شہریوں کوشمار دنیا کے خوشحال ترین افراد میں ہوتا ہے۔ چنانچہ تجربہ بتاتا ہے کہ پاکستان کو چین کے قریب ہو کر موجودہ بدلتی دنیا میں معاشی اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں اپنا حصہ وصول کرنا چاہئے۔ یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ چین نے پاکستان کی ہر مشکل میں مدد کی ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ
جاری رہے گا۔اس کی تازہ ترین مثال روس سے تیل کی خریداری کے لئے چینی کرنسی یوان کا استعمال ہے ۔سستے تیل کی پہلی کھیپ کے لیے روسی حکومت کو چینی کرنسی میں ادائیگی کی گئی ہے۔ غیر ملکی ادائیگی کے لیے ڈالر کی بجائے چینی کرنسی کے استعمال کو ایک اہم اور بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت رعایتی روسی خام تیل کا پہلا کارگو جہاز اتوار کو کراچی پہنچا ہے اور فی الحال اس پر لدا ایندھن اتارا جا رہا ہے۔پیٹرولیم کے وزیر مصدق ملک نے بھی تصدیق کہ ہے کہ اس ایندھن کی ادائیگی چین کی کرنسی آر ایم بی(یوآن)میں کی گئی ہے۔تاہم انہوں نے اس معاہدے کی تجارتی تفصیلات ظاہر نہیں کیں، جن سے قمیت کا تعین ہو سکے یا یہ ظاہر ہو سکے کہ پاکستان کو یہ تیل عالمی منڈی کے مقابلے میں کتنا سستا ملا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ روس کے ساتھ پاکستان کا پہلا 'گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G)معاہدہ ایک لاکھ ٹن خام تیل پر مشتمل تھا، جس میں سے 45 ہزار ٹن کراچی کی بندرگاہ پر آ چکا ہے اور باقی ابھی راستے میں ہے۔ پاکستان نے یہ خریداری اپریل میں کی تھی۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی خریداری سے ماسکو کو چین کے ساتھ ساتھ اپنی فروخت میں اضافہ کرنے کا ایک اور نیا راستہ مل جائے گا۔ اسلام آباد اپنی پیٹرولیم مصنوعات کا 84 فیصد درآمد کرتا ہے اور تاریخی طور پر اس کے لیے دوست خلیجی ریاستوں پر انحصار کرتا ہے۔چین کی وزارت خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہایہ پاکستان اور روس کے درمیان اور ان دونوں ممالک کی خودمختاری کے دائرہ کار میں معمول کا تجارتی تعاون ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ہمیں اصولا آر ایم بی میں خام تیل کی تجارت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔اس طرح پاکستان نے بلآخر ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جس میں معاشی خوشحالی اور ترقی کی منزل تیزی سے قریب آ سکتی ہے تاہم ضروری ہے کہ اس سلسلے کو زیادہ تیزی کیا جائے اور مربوط و موثر پالیسی کے تخت عملی اقدامات کو ترجیح دی جائے یہی وقت کی ضرورت ہے ۔