تنخواہ مل گئی؟

عیدقرباں کے قریب آنے پر جامعات کے ملازمین بالخصوص سب سے بڑی اور سب سے قدیم درسگاہ کے ملازمین کو اس تاثر اور بعض ذرائع سے ملنے والی خبر نے بے چین بلکہ سیخ پا کردیا تھا کہ گویا یونیورسٹی ملازمین جون کی تنخواہ یا کم از کم پوری تنخواہ سے محروم رہیں گے تاہم جامعہ کے شعبہ امور مالیات کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی کہ ملازمین کوصرف تنخواہ نہیں ملے گی بلکہ پوری بھی ہوگی ہر چند کہ یہ خبر یونیورسٹی ملازمین بالخصوص کلاس فور اور کلاس تھری کےلئے اطمینان کے سائنس کا باعث بنی مگر کیا کریں کہ ا گلے ہی روز یونیورسٹی سینیٹ سے یہ کہتے ہوئے مالی سال2023-24ءکا بجٹ واپس کردیاگیا کہ بجٹ سرپلس کیوں نہیں ہے؟ اب یہ سوال بلکہ اعتراض کہ اتنے بھاری بھر کم خسارے کا بجٹ کیوں بنایا گیا ہے؟ باعث حیرت بھی ہے اور باعث تشویش بھی‘ ممکن ہے کہ یہ تلخ حقیقت اعتراض کرنیوالوں کی نظروں سے اوجھل ہو کہ جامعہ کے سالانہ اخراجات کتنے ہیں؟ گزشتہ پانچ سال کے دوران مہنگائی کا انتہائی سطح پر پہنچنے کے سبب اخراجات میں کتنا اضافہ ہوا؟ حکومتی گرانٹ کی صورتحال کیا ہے؟ اضافہ ہو رہا ہے یا مسلسل کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے؟ اعلیٰ تعلیم کا بجٹ کتنا ہونا چاہئے؟ اور ہے کتنا؟ تنخواہوں پنشن اور مراعات یا بہ الفاظ ملازمین الاﺅنسز میں گزشتہ سال کے بجٹ میں حکومت کی طرف سے جس اضافے کا اعلان کیا گیا تھا اس کی ادائیگی کیلئے جامعات کو ملنے والی گرانٹ میں کتنا اضافہ ہوا؟ اسی طرح کورونا کے ہاتھوں کم از کم سال ڈیڑھ سال تک یونیورسٹیاں جس ناگفتہ بہ حالت سے دوچار رہیں اس سے نمٹنے میں حکومتی تعاون کتنا رہا؟ آیا کوئی پیکیج دیا گیا؟ اور اب جبکہ 7مارچ سے18اپریل تک جامعہ پشاور میں تالہ بندی کے سبب جس قدر بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس میں وفاقی اور صوبائی حکومت نے کتنا بوجھ اٹھا لیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ جامعہ کے بجٹ میں خسارہ نہ ماننے والوں کی نظروں سے او جھل ہیں اگر یہ تلخ حقیقت پیش نظر ہوتی تو بجٹ واپسی کے فیصلے پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا جاتا‘ جامعہ ہی کے بعض حلقے بجٹ واپسی کو یونیورسٹی‘ انتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ سینیٹ کا یہ اعتراض بجا ہے کہ انتظامیہ نے ذرائع آمدن بڑھانے اور نئے ذرائع ڈھونڈنے کیلئے کچھ نہیں کیا ہے اب یہ بات بھی باعث حیرت معلوم ہوتی ہے کہ انتظامیہ نے آمدنی نہیں بڑھائی اور نئے ذرائع پیدا نہیں کئے ارے بھئی آمدنی کیسے اور کہاں سے بڑھائیں؟ اور نئے ذرائع آمدن کیسے اور کہاں پر پیدا کریں؟ جہاں تک فیسیں اور واجبات بڑھانے کا تعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ اس میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں بلکہ یونیورسٹی کے معترض حلقے تو فیسوں اور چارجز میں یہ کہتے ہوئے کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ چونکہ گزشتہ دو سال کے دوران طلباءکی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے لہٰذا فیسیں کم از کم 50فیصد کم ہونی چاہئے‘ اب یہاںپر اس معاملے میں بھی تضاد اور ابہام پایا جاتا ہے کیونکہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سنڈیکیٹ کے اس واضع فیصلے کے باوجود کہ فیسوں اور چارجز میں ہر سال10 فیصد اضافہ ہوگا یونیورسٹی نے گزشتہ چار پانچ سال کے دوران کوئی اضافہ نہیں کیا ہے اب یہ الگ بات کہ انتظامیہ کی اپوزیشن اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی بلکہ کہتی ہے کہ یہ تو انتظامیہ سنڈیکیٹ جیسی فیصلہ ساز مجاز باڈی کی حکم عدولی کی مرتکب ہوئی ہے بہرکیف پرانی جامعات بالخصوص جامعہ پشاور کی حالت نہ صرف دگرگوں ہے بلکہ بہتری کے آثار کوئی مستقبل میں بھی اس لئے نظر نہیں آرہے ہیں کہ ایک تو مہنگائی یعنی اخراجات میں کمی کا کوئی امکان نہیں جبکہ حالیہ بجٹ میں تنخواہوں مراعات اور پنشن میں تک کے حساب سے جو اضافہ کیا گیا ہے اس کی ادائیگی بھی لازمی ہوگی اور جب نہیں ہوگی تو جلد یا بدیر ملازمین اس کے لئے بھی کام کاج کو خیرباد کہتے ہوئے سڑکوں پر ہونگے سوال یہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم بیچاری کا کیا بنے گا؟ مگر اس وقت سوال یہ ہے کہ جب بجٹ نظرثانی کیلئے واپس کردیاگیا ہے تو عید سے قبل ملازمین کی تنخواہوں کا کیا بنا؟ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مجاز باڈی سے بجٹ کی منظوری کے بغیر اس سے اخراجات نہیں ہوسکتے؟ بہتر ہوا کہ ایسا نہیں ہو اور اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوتا تو پھر زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ یونیورسٹی کے پاس تنخواہوں کیلئے گزشتہ سال کے منظور شدہ بجٹ میں سے کچھ پیسے اکاﺅنٹ میں پڑے ہوتے ورنہ پھر تو ادائیگی ممکن نہ تھی کیونکہ ملازمین تو اس بات پر یک زبان ہیں کہ بجٹ بنانا اور اس کیلئے پیسوں کا بندوبست ان کی نہیں بلکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔