کڑوی مٹھاس

ذیابیطس (شوگر) کا مرض پاکستان میں عروج پرہے اور پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد چین اور بھارت جیسی بڑی آبادی والے ممالک کے بعد تیسرے نمبر ہے‘ تشویشناک امر یہ ہے کہ ’بالغ افراد میں ذیابیطس کے لحاظ سے‘ پاکستان بڑی آبادی والا ملک ہے بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کی جانب سے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں بالغ افراد جنہیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہے اُن کی تعداد تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ ہے اندیشہ ہے کہ سال دوہزارتیس تک ہر چار بالغ پاکستانیوں میں سے ایک شوگر کا مریض ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر ہم نے اِس مرض کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے اصلاحی اقدامات نہ کئے تو شوگر کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی! شوگر کی ابتدائی علامات رکھنے والے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی پاکستان کا شمار سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کھانے پینے میں احتیاط نہیں کرتے اور اکثر انتہائی میٹھے مشروبات (کاربونیٹیڈ اور انرجی ڈرنکس) کا استعمال کرتے ہیں جبکہ رات گئے تک جاگنے اور بنا بھوک پیاس کے کھانے پینے سے بھی جسم میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک شوگر کی بیماری بھی ہے سال اُنیس سو نوے میں ذیابیطس پھیل رہا ہے توجہ طلب ہے کہ دوہزارنو سے دوہزار اُنیس کے درمیان ذیابیطس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی اموات اور اِس سے ہونے والی معذوری میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا ہے اور انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کیوں ہے ‘ اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے ذیابیطس کے بارے میں ایک لفظ سمجھ لیں کہ عام طور پر پاکستان میں اِس بیماری ”شوگر کی بیماری“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ طبی سائنس میں اسے ذیابیطس میلیٹس کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ دونوں الفاظ یونانی زبان کے ہیں ذیابیطس کا مطلب بہت زیادہ پیشاب ہے اور میلیٹس کا مطلب میٹھا ہے۔ یہ بیماری ہزاروں سال سے مشہور ہے شوگر میں انسانی جسم کے اندر موجود لبلبہ درکار مقدار میں ’انسولین‘ پیدا نہیں کرتا یا جب جسم انسولین کو مو¿ثر طریقے سے استعمال نہیں کرسکتا تو اُس سے شوگر لاحق ہوتا ہے۔ انسولین ایک ہارمون ہے جو خون میں گلوکوز کو منظم کرتا ہے۔ ہائپرگلیسیمیا جسے ہائی بلڈ گلوکوز بھی کہا جاتا ہے‘ یہ بے قابو ذیابیطس کا ایک عام اثر ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ جسم کے بہت سے نظاموں‘ خاص طور پر اعصاب اور خون کی شریانوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ انسولین ہمارے لئے توانائی کا حتمی ذریعہ ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر‘ لبلبہ انسولین پیدا نہیں کرتا۔ ایسے مریضوں کو روزانہ کی بنیاد پر انسولین لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض انسولین کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ انسولین کی دریافت سے پہلے ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہونے والے زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس ہمارے جسم کو انسولین کا مناسب استعمال کرنے سے روکتی ہے جس کی وجہ سے بلڈ شوگر کی سطح بلند ہوسکتی ہے۔ اگر مناسب طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو یہ خاص طور پر پیروں‘ آنکھوں‘ گردوں اور دل کو شدید نقصان پہنچاتا ہے لیکن عام طور پر یہ پورے جسم کو متاثر کرتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد مریض ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار ہیں۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں میں اتنی بڑی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ اس کی وجہ کثیر الجہتی ہے اور مشترکہ جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا نتیجہ ہے لیکن پھر موجودہ بحرانی صورتحال کو جنم دینے کےلئے جینیات اور ماحول کس طرح تبدیل ہوا ہے اِسے سمجھنا ضروری ہے۔ ذیابیطس سے تعلق رکھنے والے جینز اور ان کی مختلف اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ قریبی رشتہ داروں کے درمیان بار بار شادیوں کی وجہ سے جینیاتی عوامل زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں جینیاتی بیماریاں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہیں لہٰذا خاندان کے اندر بار بار شادی نہیں کرنی چاہئے (بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ظفر مرزا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)