قناعت اور سادگی میں پنہاں فلسفہ 

 حکمرانوں کو جو قناعت اور سادگی سے رہنے کا سبق دیا جاتا ہے اس کے پیچھے ایک فلسفہ پنہاں ہے ۔ عوام کو بھی اس سے قناعت اور سادگی کا درس ملتا ہے اور یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کو دیکھ طرز عمل اپناتے ہیں اور دیکھاجائے تو اس طرز عمل میں ترقی اور آگے بڑھنے کار استہ بھی، آج وطن عزیز کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس میں بے دریغ اخراجات کا بڑا ہاتھ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کفایت شعاری اور سادگی سے ہی ہم معاشی مشکلات کو کم کر سکتے ہیں۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی وسائل کو ضائع کرنے سے دریغ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ آبادی اور وسائل کے درمیان جو فرق ہے اس کو کم سے کم کیا جاسکے۔اب کچھ تازہ ترین اہم واقعات پر ایک سرسری نظر ہو جائے۔یوکر ین اور روس کی رواں جنگ کے بارے میں متضاد خبریں مل رہی ہیں۔ جنگوں میں فریقین اکثر مبالغہ آ رائی سے کام لیتے ہیں ۔لہٰذا ان کی جانب سے جنگ کے بارے میں خبروں پر یقین کرنے سے پہلے ضروری جانچ پڑتال لازمی ہوتی ہے۔ روس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس پر حملہ کرنے والے42ڈرون طیارے مار کر یوکرین کا روس پر ایک حملہ ناکام بنا دیاہے جب کہ یوکرین نے کہا ہے کہ روس نے اس پر حملہ کر کے 13 ہزار ٹن اناج تباہ کر دیاہے کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ سچائی جنگ کا سب سے پہلا شکار ہوتی ہے ۔ایک اور اہم واقعہ جو روس یوکرین جنگ سے ہی متعلق ہے وہ روس کی پرائیوٹ آرمی ویگنر کے سربراہ کی موت ہے جو ایک جہاز حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ویگنر سربراہ یوگینی پریگوزن نے کچھ ماہ قبل روس کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان بھی کیا تھا اور تب سے اس کی جان کو لاحق خطرات کی باتیں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اگر چہ یہ بغاوت مختصر تھی تاہم روس کے صدر پیوٹن نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ پرگوزن نے غداری کی ہے ۔ایسے حالات میں بیلا روس کے صدر نے ثالثی کی اور جہاں ویگنر کے سربراہ کو معافی ملی وہاں اسے بیلا روس میں پناہ بھی دی گئی۔ اس کے بعد بھی پریگوزن ماسکو آتے جاتے رہے اور گزشتہ دنوں اس کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ افریقہ کے کسی ملک میں موجود تھے۔بہر حال یہ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پریگوزن کی موت کے کیا اثرات سامنے آتے ہیں۔ دیر آ ید درست آ ید اگر آج بھی افغان مہاجرین کے پاکستان میں اثاثوں کی تحقیقات کا آ غاز کر دیا گیا ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں ۔ جس طرح دیگر ممالک میں تارکین وطن اور باہر سے آئے لوگوں کے اعداد وشمار مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں اس طرح ہمارے ہاں بھی ضروری ہے ۔ اگر افغان مہاجرین کے اثاثے قانون کے مطابق ہیں تو پھر ان پر قانون کے مطابق جو ٹیکسز بنتے ہیں وہ بھی لازمی طور پر لاگوہونا ضروری ہے اس طرح قومی خزانے کو خاطر خواہ فائدہ ہوگا۔