روس اور چین‘یک جان دو قالب 

چین کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنے کا کریڈٹ وطن عزیز کے کئی سیاست دان لینا چاہتے ہیں پر سچ تو یہ ہےکہ اس کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ھے تو وہ پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو جاتا ہے کہ جو عوامی لیگ کے قائد بھی تھے اسکے بعد اب تک جو اس دیرینہ دوستی میں کوئی دراڑ نہیں پڑی تو اس کا کریڈٹ چین کی قیادت کو بھی جاتا ہے کہ جس نے کمال حوصلے اور بردباری کے ساتھ اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات رکھتا ہے جو چین کا شروع سے دشمن تھا پاکستان کے ساتھ چین کی دوستی میں رتی بھر بھی کمی نہ آنے دی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان کے عوام چین اور اس کے باسیوں کے ساتھ گہرا لگاﺅ رکھتے ہیں۔ چنانچہ آج اگر پاک چینی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے تو اس میں ہمارے رہنماﺅں سمیت چین کے لیڈروں کا بھی اہم کردار ہے ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی بعید میں ایک لمبے عرصے تک چین اور اس وقت کے سوویت یونین کی لیڈرشپ کے تعلقات میں کافی حد تک سرد مہری تھی حالانکہ کمیونسٹ بلاک میں یہ دو ملک ہی نہایت اہم تھے۔ یہ تو ماضی قریب کی بات ہے کہ یہ دوممالک یک جان دوقالب ہوئے ہیں جس سے عالمی سیاست کا کافی حد تک نقشہ بدلا ہے۔ سوویت یونین کا حصہ بخرہ کرنا امریکہ کا ایک بہت بڑا سیاسی اور عسکری کارنامہ تھا پر چین نے دھیرے دھیرے دنیا میں اپنے لئے جو منفرد سیاسی معاشی اور عسکری مقام بنا لیا ہے وہ امریکہ کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اب چین اور روس ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ہیں ان دونوں ممالک کی قیادت نے محسوس کر لیا ہے کہ ایک ایک اور دو گیارہ ہوتے ہیں اور وہ امریکی استعمار کا مقابلہ صرف اسی صورت میں موثر انداز میں کر سکتے ہیں اگر وہ متحد ہو جائیں اس جگہ اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ1970 کی دہائی میں امریکہ نے چین کے ساتھ تعلقات جوڑنے کے واسطے پاک چین دوستی کو استعمال کیا اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر خفیہ طور چین جا پہنچے اس دورے نے پھر امریکی صدر ر چرڈ نکسن کے دورہ چین کی راہ ہموار کی۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ خیبرپختونخوا میں ڈینگی کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ابھی تک فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے سپرے کا عمل شروع نہیں ہو سکااگر یہ خبر درست ہے کہ روس اور چین کے صدر بھارت میں ہونے والی جی20 کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے تو یہ بھارت کی ڈپلومیسی کے واسطے ایک دھچکے سے کم نہیں ہے۔کرم تنگی ڈیم پراجیکٹ کے اگلے مرحلوں پر کام تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جتنا جلدی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا اتنی جلدی اس ڈیم سے 1.2' ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ65 میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جا سکے گی یاد رہے کہ پانی سے پیدا کی جانے والی بجلی سب سے سستی بجلی ہوتی ہے۔