شرفاءکا کھیل

کرکٹ کو gentlemengameیعنی شرفا کا کھیل کہا گیا ہے اور واقعی جب تک ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی کے مختصر دورانیے والے کرکٹ میچوں کا چلن عام نہیں ہوا تھا ۔یا بقول کسے کرکٹ میں کمرشلائزیشن commercialisation نے اپنے پنجے نہیں گاڑے تھے اس وقت تک کرکٹ واقعی شرفا کا کھیل تھا جس دن سے کرکٹ کے کھلاڑیوں میں پیسے کی ریل پیل عام ہوئی اس دن سے کرکٹ میں بال ٹیمپرنگ اور میچ فکسنگ جیسی قباعتیں پیدا ہونا شروع ہو گئیں کئی نامور کرکٹ کے کھلاڑی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ان میں کئی کو سزا بھی ہوئی اور کئی کھلاڑیوں کا کیرئیر جلد مال کمانے اور راتوں رات کروڑ پتی بننے کے چکر میں وقت سے پہلے ختم ہو گیا شاید ہی کوئی ایسا ملک بچا ہو کہ جس کی کرکٹ ٹیم کا کوئی نامور کھلاڑی ان سٹہ بازوں کے بہکاوے میں نہ آیا ہو کہ جو میچ فکسنگ یا بال ٹیمپرنگ کا کاروبار کرتے ہیں‘ یہ دونوں قباعتیں اس وقت بالکل نہ تھیں کہ جب صرف ٹیسٹ میچز کھیلے جاتے تھے اور ففٹی ففٹی یا ٹی ٹونٹی میچوں کا رواج نہ تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1975 ءمیں پہلی مرتبہ آسٹریلیا کے بعض کرکٹ کے کھلاڑیوں نے ففٹی ففٹی میچوں کو شروع کرنے کی تجویز پیش کی تو دنیا کے تمام سینئر کرکٹ کے کھلاڑیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس سے کرکٹ کے کھیل میں مالی کرپشن پھیل سکتی ہے وقت نے ان کے خدشات کو درست ثابت کیا، مختصر دورانیہ کے کرکٹ میچوں نے اگر ایک طرف روایتی ٹیسٹ کرکٹ سے اس کی انفرادیت اور پہچان چھین لی ہے تو دوسری جانب اس کو مالی کرپشن سے دوچار کر دیا ہے ۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں اور مختصر دورانیہ کے کرکٹ میچوں کو مقبول عام کرنے میں الیکٹرانک میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج دنیا میں فٹبال کے بعد غالباً کرکٹ کا کھیل سب سے زیادہ پاپولر کھیل کادرجہ اختیار کر چکا ہے ‘بال ٹیمپرنگ اور میچ فکسنگ میں ملوث کرکٹ کے کھلاڑیوں کا پردہ چاک کرنے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے کیونکہ کیمرے کی آنکھ کبھی جھوٹ نہیں بولتی ۔اب ڈالتے ہیںحسب معمول ذرا اہم قومی اور عالمی امور پر ایک طائرانہ نظر‘ یہ خوشی کی بات ہے کہ چین کارگو طورخم بارڈر عبور کر کے کابل پہنچ گئی ہے اور یہ سفر اس نے پرانے سلک روٹ پر طے کیا‘چینی صدر کا یہ بیان قابل ستائش ہے کہ چینی جدیدت کی کامیابیوں کا باقی دنیا سے اشتراک کیا جائے گا دنیا کے تمام پسماندہ ممالک کے ماہرین مالیات و معاشی امور کو چاہیے کہ وہ چین کی مثال سے سبق لیں اور بغور ان عوامل کا مشاہدہ کریں کہ جن کی وجہ سے چین نے قلیل عرصہ میں اپنے ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کو مالی طور پر آسودہ حال بنا دیا ہے۔ یہ خبر تشویشناک ہے کہ خیبرپختونخوا میں مردہ مرغیاں سپلائی کی جارہی ہیں اس قسم کے جرائم کو کنٹرول کرنے کے واسطے ریاستی ادارے بھی فیلڈ میں موجود ہیں ‘پر اس کے باوجود حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خوردنی کا کاروبار نہیں کیا جارہا اور اس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کو کڑی سزا نہیں دی جا رہی استغاثہ سے متعلق سرکاری محکمے ان کے خلاف مضبوط کیسز بنا کر عدالتوں کے سامنے ان کے خلاف موثر انداز میں مقدمات کی پیروی نہیں کرتے اور ان کو قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر صفائی کے وکلا عدالتوں سے بہ آسانی چھڑوا لیتے ہیں پولیس استغاثہ اور عدالتوں تینوں کو اس ضمن میں عرق ریزی سے کام کر کے ان افراد کے ساتھ نرمی سے پیش نہیں آنا چاہیے جو مضر صحت اشیائے خوردنی فروخت کر کے انسانی صحت اور زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر وفاقی پولیس کا دائرہ کار ملک بھر میں بڑھانے کی منطق کیا ہے ہر صوبے کی اپنی پولیس فورس موجود ہے جو ملکی قوانین کے تحت ضرورت پڑنے پر امن عامہ کے نفاذ میں صوبائی حکومتوں کی مناسب معاونت کرتی چلی آ رہی ہے‘ بہتر تو یہ ہوگا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں تفصیلی غور و خوض کے بعد مناسب فیصلہ کیا جائے اور یہ فیصلہ الیکشن کے بعد منتخب حکومت کے کرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے۔