حکمران کیوں سادہ زندگی گزاریں؟

عربی زبان کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ رعایا حکمرانوں کا چلن اپناتی ہے حکمرانوں کو کیوں سادہ زندگی گزارنا چاہیے‘ اس کہاوت کے پیچھے ایک بہت بڑا فلسفہ کار فرما ہے جسے ہر حکمران بھلے وہ ملک کا ہو صوبے کا یا ضلع کا ان سب کی یاد دہانی اور رہنمائی کے واسطے ہم درج زیل حقائق پیش کرتے ہیں‘خدا نے حکمرانوں پر فرض عائد کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائیں۔بحار الانوار کی نویں جلد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک روایت نقل ہے جس میں وہ فرماتے ہیں خدا وند عالم نے مجھے لوگوں کا پیشواقرار دیا ہے اور اسی وجہ سے مجھ پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنی زندگی کو خوراک و پوشاک کے لحاظ سے معاشرے کے کمزور ترین طبقہ کے معیار پر رکھوں تاکہ ایک طرف غریب کے دکھوں کے لئے باعث تسکین اور دوسری طرف ثروت مندوں کی طغیانی کے لئے سدباب ہو سکے‘ ہمارے کہنے کا مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ اچھی خوراک و پوشاک کی نعمت سے استفادہ کرنا حرام ہے ہمارے دین میں ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بات دوسری ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ پیشوا یا حکمران کہلاتے ہیں ان کے خاص فرائض ہیں فقراء جب اغنیا کو ہر چیز سے مالا مال دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں پر ٹھیس لگتی ہے ان کے غموں کی تسکین صرف اسی میں ہے کہ ان کے حکمران کا خانوادہ بھی انہی کی طرح زندگی گزار رہا ہے اگر حکمران مالداروں کی طرح زندگی گزاریں گے تو مساکین کے غموں کی تسکین کا باعث بھی ختم ہو جائے گا‘افسوس کہ یہ چھوٹی سی بات اغیار کے حکمرانوں کی سمجھ میں تو آ گئی ہے اور ان کا رہن سہن بودو باش ان کے ملک کے عام آدمی کی طرح ہے پر ایک ہم ہیں کہ ابھی تک وطن عزیز سے وی وی آئی پی کلچر کو ختم نہیں کر سکے ہمارے حکمران عباسی بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرتے آ ئے ہیں اس ضمن میں ہم ایک واقعہ کا ذکر کرتے چلیں جو ہمارے مندرجہ بالا بیانیہ کی مزید وضاحت کر دے گا‘1966 ء کی بات ہے بیجنگ میں چین کے ثقافتی انقلاب کی ایک تقریب میں ہمارے سفیر بھی بیھٹے ہوئے تھے کہ ان کی نظر ماؤزے تنگ کے جوتے پر پڑی کہ جو جگہ جگہ پھٹا ہوا تھا اور لگتا تھا جیسے موچی نے اسے جگہ جگہ سیا ہو‘ تقریب کے اختتام پر گپ شپ کے موڈ میں ہمارے سفیر نے وہاں پر موجود چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سے کہا یار اب تم اتنے غریب بھی تو نہیں کہ اپنی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین کو جوتوں کا ایک نیا جوڑا خرید کر نہ دے سکو‘اس کے جواب میں اس نے کہا‘نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے‘ اصل میں ہوا یوں ہے کہ چند ماہ پہلے ماؤ زے تنگ ایک کارخانہ کے دورے پر تھے جہاں مزدوروں کی اکثریت ننگے پاؤں تھی انہوں نے وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم نئے جوتے خرید سکیں تو ماؤ زے تنگ نے وہاں یہ اعلان کر دیا کہ اب میں بھی اس وقت تک جوتے کا نیا جوڑا نہیں خریدوں گا کہ جب تک اس کارخانے کا ہر مزدور اس قابل نہیں ہو جاتا کہ وہ اپنے لئے نیا جوتا خرید سکے چنانچہ ما ؤزے تنگ کا جب بھی جوتا کہیں سے پھٹ جاتا ہے تو ہم موچی سے اس پر پیوند لگوا دیتے ہیں‘ غالباً یہ ہی وہ وجہ ہے کہ ماؤ زے تنگ بلا تفریق مذہب و ملک دنیا میں رہنے والے ہر محنت کش انسان کی آنکھ کا تارا رہے ہیں‘ واقعی ان جیسے سیاست دان اس دنیا میں شاذ ہی پیدا ہوئے‘ فرانس کے حکمران نپولین کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس کا رہن سہن اور بودو باش بھی فرانس کے عام شہری کی طرح تھا‘پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کرنال بھارت کے بہت بڑے زمین دار تھے جب پاکستان بنا تو وہ ہندوستان میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے آ ئے جب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کو گولی لگی تو انہیں فوراً راولپنڈی کے ہسپتال پہنچایا ڈاکٹروں نے ان کے سینے پر لگے زخم تک پہچنے کے واسطے ان کی قمیض اتاری تو نیچے انہوں نے جو بنیان پہن رکھی تھی وہ جگہ جگہ پھٹی ہوئی تھی اور انہوں نے جو موزے پہن رکھے تھے وہ بھی پرانے تھے۔