دلچسپ اور تلخ حقائق


امریکہ کی اندھی تقلید نے ماضی میں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 1960 ث کی دہائی میں پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے پشاور کے نزدیک بڈ ھ بیر کے مقام پر امریکہ کو ایک ہوائی اڈہ فراہم کر دیا کہ جس سے روزانہ ایک امریکی طیارہ پرواز کر کے سوویت یونین جاتا اور اس کی ملٹری تنصیبات کی فوٹو گرافی کرتا جب سوویت یونین کی کے جی بی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے کمال مہارت سے جاسوسی کرنے والے طیارہ کو ایک دن مار گراکر اس کے پائلٹ کو بمعہ فوٹوز کے زندہ پکڑ لیا پائلٹ نے سب راز اگل دیا کہ وہ تو چھ ماہ سے یہ کام کر رہا ہے اس واقعے کے بعد سوویت یونین کا دل ہم سے میلا ہو گیا اور اس کی قیادت نے پاکستان سے یہ گلہ کیا کہ پاکستان کی امریکہ دوستی پر اسے اعتراض نہیں پر اس کو اس طرح ہماری پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپنا چاہئے تھا اس دن سے ماسکو کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے جو بڑی مشکل سے اب کہیں جا کر سفارتی سطح پر کوشش بسیار کے بعد کہیں ٹھیک ہوئے ہیں ۔ 1966 ءکے ثقافتی انقلاب کی تقریبات میں شرکت کے واسطے پاکستان کے علماءکا ایک وفد بھی بیجنگ گیاتھا اس کی ملاقات چین کے سربراہ ماﺅزے تنگ سے ان کے دفتر میں کرائی گئی ‘وفد کے بعض شرکاہ نے ان سے کہا کہ آپ قرآن مجید بھی پڑھا کریں تو وہ اٹھے اور اپنے دفتر میں نصب الماری سے قرآن کریم کا چینی زبان میں ترجمہ کیا گیانسخہ نکالا اور وفد سے کہا کہ وہ اس کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں ‘یہ بات ہمیں اس وفد کے ایک ممبر نے بتائی تھی۔1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان نے ائر مارشل اصغر خان کو چین بھجوایا تاکہ وہ اس کی قیادت سے ملاقات کے بعد معلوم کر سکیں کہ چین پاکستان کی کس قدر جنگی کمک کر سکتا ہے‘ اصغر خان اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے جب اس وقت کے چینی وزیراعظم سے اس بابت سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا میں ہمارے جتنے بھی جہاز کھڑے ہیں وہ سب کے سب پاکستان کےلئے حاضر ہیں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں جانتا ہوں تمہارا صدر ہماری یہ پیشکش قبول نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کر کے وہ امریکہ کو نالاں نہیں کرنا چاہے گا ‘1971ءکی پاک بھارت جنگ میں اگر امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ پاکستان پہنچ جاتا تو عین ممکن تھا پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا ‘پر امریکہ نے اسے بروقت نہ بھجوایا‘ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں بھی امریکہ کے واسطے اس وقت کی
 پاکستانی قیادت نے ہراول دستے کا رول ادا کیا اور خواہ مخواہ سوویت یونین کی دشمنی مول لی ‘اسی طرح بعض دیگر اقدامات سے بھی مفت میں سوویت یونین کا دل کھٹا کیا یہ درست ہے کہ امریکہ نے بعض مالی اور تعلیمی معاملات میں پاکستان کی معاونت ضرور کی ہے پر اس کی پاکستان کے ساتھ دوستی میں پلس پوائنٹس کے مقابلے میں مائنس پوائنٹس زیادہ ہیں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر قیام پاکستان کے بعد ہمارے حکمران امریکہ ہی کی جھولی میں بیٹھنے کے بجاے دونوں سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکہ سے بنا کر رکھتے کہ جس طرح بھارت نے ان دونوں سے تعلقات بنا کررکھی اور دونوں سے فائدے اٹھاتے تو شاید ہمیں اتنا نقصان نہ ہوتا کہ جتنا ہواہے۔ سابقہ فاٹا کے تمام قبائلی تعریف کے مستحق ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک فاٹا میں ان افغانستان کے ایجنٹوں کی باتوں میں نہیں آئے جو بھارت کی شہ پر افغانستان کے پورے تعاون سے فاٹا میں امن کو تاراج کرنے کے درپے تھے بلکہ اب بھی ہیں ‘یہ ایک حقیقت ہے کہ فاٹا کے قبائل کی پاکستان سے محبت لازوال ثابت ہوئی ہے‘ افغاستان نے بھارت کے اشارے پر فاٹا میں سرکردہ قبائلی عمائدین کو وقتاً فوقتاً مالی مراعات سے خریدنے کی بلا شبہ کوشش کی ہے اس مقصد کے واسطے ان کو افغانستان کے اندر باغات اور مکانات بھی الاٹ کئے پر اس قسم کے بکاﺅ مال کی باتوں کوہمارے قبائلی لوگوں نے در خور اعتنا نہ سمجھا۔