عالمی سطح کے بعض ناقابل فراموش عظیم لیڈرز


 وہ رہنما جنہوں نے دینا کی تاریخ پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں کیوں نہ آج کے کالم میں ہم ان میں سے چند عظیم شخصیات کی خصوصیات پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں ہم زیادہ دور تک نہیں جائیں گے صرف ماضی قریب تک اپنی گزارشات کو محدود رکھیں گے جن شخصیات کا ہم ذکر کریں گے ہو سکتا ہے کئی قارئین ان کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے ہوں پر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انہوں نے تاریخ کے دھارے کو اپنے خیالات اور پالیسیوں سے موڑنے کی کوشش کی اس میں بعض کو کامیابی کا منہ دیکھنا پڑا ہے تو بعض اپنے مشن میں کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکے‘ 
مارکس نے ایک دنیا کو متاثر کیا ان میں ماؤزے تنگ چواین لائی اور ڈینگ کے نام سر فہرست ہیں‘ سوویت یونین کے لینن کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے اور سابقہ یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو اور کیوبا کے فیڈرل کاسترو کے نام بھی بعض سیاسی مبصرین اس فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت کا مظاہرہ کرنے پر برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل اور فرانس کے فوجی جرنیل ڈیگال کا نام بھی عزت اور توقیر سے لیا جاتا ہے امریکی صدور جن کا نام تاریخ دان بڑی عزت سے لیتے ہیں ان میں ابراہام لنکن‘ جارج واشنگٹن‘ روزویلٹ اور آئزن ہاور شامل ہیں۔ ایران کے امام خمینی انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو اور لیبیا کے صدر قذافی نے بھی اپنے اپنے ملکوں 
میں اچھا نام چھوڑا ہے اور ان کے عوام ان کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ مصر کے جمال عبدالناصر بھی تاریخ میں ایک دبنگ قسم کے لیڈر شمار کئے جاتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور تنزانیہ کے جولئیس نیا رارے کا شمار افریقہ کے ممتاز لیڈروں میں ہوتا تھا نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کے حقوق کیلئے اپنی زندگی کے ستائیس برس جیل میں گزارے تھے اور ان کا قصور یہ تھا کہ وہ فرنگیوں کی نسلی تعصب کی پالیسی کے خلاف افریقہ کے سرگرم لیڈر تھے اور اس جرم کی پاداش میں انہیں ستائیس برس کی طویل قید کاٹنا پڑی تھی۔ امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر کے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالم اسلام کے دشمن ملک اسرائیل کی کس قدر حمایت کر رہا ہے دو ماہ سے جاری جنگ میں اب تک سترہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ہیلتھ انشورنس کے ضمن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے سالانہ کچھ رقم کی کٹوتی کوئی بری بات نہیں پر جس چیز کا خیال رکھنا 
ضروری ہو گا‘ وہ یہ ہے کہ کیا اس کٹوتی کے بدلے ان کو بیماری کے دوران ہسپتالوں میں خاطر خواہ طبی علاج بھی فراہم کیا جاے گا یا نہیں جسے یقینی بنانے کے واسطے ایک فول پروف میکینزم مرتب کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ورسک روڈ کے حالیہ دھماکے کا مرکزی ملزم ایک افغان باشندہ نکلا ہے جس سے یہ حقیقت ایک مرتبہ پھر آشکارا ہو گئی ہے کہ وطن عزیز کے امن عامہ کو تاراج کرنے میں پاکستان کے اندر غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افغانیوں کا کس قدر وسیع ہاتھ ہے۔ اب تک وطن واپس جانیوالے افغان باشندوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے اور وزیر داخلہ اس بات پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس انخلاء کی راہ میں روڑے اٹکانے والی ہر سازش اور سیاسی دباؤ کو ناکام بنایا ہے تاہم اس سے پہلے غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کا عمل شروع کیا گیا اس میں مصلحتاًتوسیع کی گئی اس سلسلے میں جو واپسی کی تاریخ مقرر کی جاتی جب اس تاریخ میں ایک یا دودن باقی رہ جاتے تو واپسی کے عمل میں ایک سال کی توسیع کا اعلان کر دیا جاتا۔ یہ خبر تشویشناک ہے کہ کوکین کا استعمال فیشن بن چکا ہے جبکہ کچھ تعلیمی اداروں میں آئس کا استعمال تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کراچی میں ایک گرام کوکین کا ریٹ 15سے 20ہزار روپے بتایاجاتا ہے‘ آئس کی فروخت کیلئے سوشل میڈیا کا 
استعمال بھی کیا جا رہا ہے تعلیمی اداروں کی کینٹینز اور پوش علاقوں کے ریسٹورنٹ اور چائے کے ڈھابے اسکی فروخت کے اڈے ہیں‘ ان منشیات کے استعمال سے ہماری نئی جنریشن بر باد ہو رہی ہے اس لعنت کو روکنے کیلئے والدین کو بھی اپنے بال بچوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھنا ہو گی‘تاکہ ان کی توجہ صرف تعلیم کے حصول پر مرکوز رکھی جا سکے اور ان کا مستقبل بھی تاریک ہونے سے بچایا جا سکے‘حکومتی سطح پر بھی منشیات کے مکروہ دھندے کو ختم کرنا ہوگا اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے تاکہ انہیں عبرت کا نشان بنایا جا سکے اور وہ نئی نسل کا مستقبل تباہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ چونکہ نشے کی ابتدا سگریٹ سے ہوتی ہے اس لئے حکومت یہ کر سکتی ہے کہ مناسب قانون سازی کے ذریعے پبلک مقامات میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگا کر خلاف ورزی کرنیوالوں پر ناقابل ضمانت دفعہ لگا دے۔ یہ امر واقعی تشویش کا باعث ہے کہ وطن عزیز میں ہرگیارہ میں سے ایک فرد کا شوگر کی بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ یہ بیماری تمام بیماریوں کی جڑ قرار دی گئی ہے‘ احتیاطی تدابیر اپنائے بغیر تعداد آئندہ چند برسوں میں نمایاں طور پر بڑھنے کا امکان ہے‘ ماہرین خوراک ورزش اور تناؤ سے پاک ماحول کو برقرار رکھنے کے ذریعے اس مرض کو کنٹرول کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں‘اس تجویز پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو اس بیماری کو کنٹرول کرنے میں کسی حد تک کامیابی ہو سکتی ہے۔