پاکستان کے آب و ہوا کے ہیرو

تقریباً چار کروڑ پاکستانی یعنی ہر چھ میں سے ایک شخص رات کو بھوکا سوتا ہے۔ شدید موسمی حالات‘ زندگی گزارنے کے لئے بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی لاگت اور پانی کی قلت کے باعث پاکستان کو پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے اور ان میں فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں کمی سے صورتحال زیادہ گھمبیر ہو گئی ہے اور اس صورتحال میں ایک جامع حل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم قدرت کی طرف سے بنایا گیا خوراک کا نظام دیکھیں اور زراعت پر توجہ دیں تو زیادہ فصلوں کی صورت غذائی خودکفالت حاصل کر سکتے ہیں اور اس غذائی خودکفالت کے حصول میں دیگر اجناس کی طرح دالیں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ دالیں عالمی سطح پر غذائی پروٹین کا ایک تہائی فراہم کر رہی ہیں۔ یہ سمارٹ فصلیں سستی‘ غذائیت سے بھرپور اور ماحول دوست ہیں۔ جن سے مٹی کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور کھاد کا زیادہ استعمال نہیں کرنا پڑتا اور یہ کاربن جمع کرنے میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔ دالوں کی اقتصادی افادیت‘ کم وسائل کی ضروریات اور فصلوں کی گردش جیسے فوائد سے زرعی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے جبکہ فصلوں کو لگنے والی بیماریوں میں بھی کمی (خلل) ڈالا جا سکتا ہے۔ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور پائیدار زراعت کے فروغ میں ماحول دوست کاشتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی زراعت کو درپیش مشکلات میں پانی کی کمی اور شدید موسمی حالات شامل ہیں۔ سال دوہزار آٹھ تک پاکستان دالیں برآمد کیا کرتا تھا۔ تاہم سال دوہزار چھ میں جب عالمی سطح پر اناج کی قلت تھی تو حکومت نے پینتیس فیصد برآمدی ٹیکس عائد کر دیا تاکہ کم مقدار میں دالیں برآمد ہوں اور ملک کے اندر دالوں کی قلت پیدا نہ ہو لیکن یہ برآمدی ٹیکس کارگر ثابت نہ ہو اور بالآخر غذائی قلت سے بچنے کے لئے حکومت نے دال کی برآمدات پر پابندی عائد کردی۔ آج پاکستان میں دال کی پیداوار محض تین لاکھ بیاسی ہزار ٹن ہے جبکہ مجموعی سالانہ کھپت کا تخمینہ تیرہ لاکھ ٹن ہے اور دالوں کی مقامی ضرورت پورا 
کرنے کے لئے ہر سال قریب ایک ارب ڈالر کی دالیں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ بڑھتی ہوئی مقامی طلب کو پورا کرنے کے لئے حکومت عزم تو رکھتی ہے لیکن پاکستان کے کاشتکار اور کسان دالوں کی کاشت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہر سال دال کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے؟ 1960ءکی دہائی میں سبز انقلاب نے پاکستان کی زراعت کو گندم اور چاول کی اعلیٰ پیداوار والی اقسام کے ساتھ نئی شکل دی جسے حکومتی سرپرستی و حمایت حاصل تھی اور جس کی وجہ سے منافع بخش بین الاقوامی تجارت کے امکانات سامنے آئے۔ نتیجتاً‘ کسانوں نے نقد فصلوں پر توجہ مرکوز کی اور زیادہ خطرات و پیداوار میں بہتری پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے دالوں کو نظر انداز کیا۔ اس نے پھلیوں کی پیداوار کو اس پس منظر میں اس قدر پیچھے دھکیل دیا کہ آج مقامی طلب نمایاں طور پر پوری نہیں ہو رہی۔ سرکاری شعبے کی جانب سے اعلیٰ معیار کے بیج فراہم کرنے میں ناکامی‘ بیج کی پیداوار اور تقسیم میں نجی شعبے کی محدود شمولیت اور ادارہ جاتی معاونت کے مکمل فقدان کے نتیجے میں دالوں کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب حکومتی ادارہ’بیج کارپوریشنز‘ بنیادی طور پر اناج اور کپاس کی فصلوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور اس نے دالوں کو نظرانداز کر دیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے سات دہائیوں میں‘ دال کی صرف چند اقسام کو تجارتی استعمال کے لئے جاری کیا گیا۔ فی الحال دال کی تقریباً اسی فیصد فصلیں ناکافی بیجوں کی وجہ سے متاثر ہیں۔ ایک مطالعے سے علم ہوا ہے کہ کسانوں کی نصف تعداد بیجوں کے لئے اوپن مارکیٹ پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ ایک 
چوتھائی بچت شدہ بیج استعمال کرتے ہیں اور صرف ایسے کاشتکاروں کی تعداد بیس فیصد ہے جو رجسٹرڈ ڈیلرز یا کمپنیوں سے بیج خریدتے ہیں۔ اسی طرح چنے کے پچاسی فیصد کاشتکار پچھلی فصلوں کے بیج استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مالی سال دوہزاربائیس میں پاکستان کو بیالیس ہزار 674 میٹرک ٹن مصدقہ دال بیج کی ضرورت تھی لیکن صرف تین ہزار 182 میٹرک ٹن بیج دستیاب تھا۔ پاکستان میں دالوں کی بوائی‘ کٹائی اور تھرشنگ کے لئے خصوصی مشینری کی کمی کی وجہ سے بھی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک کے برعکس، جہاں میکینکل کٹائی عام ہے‘ پاکستان میں دستی طریقوں کا غلبہ ہے‘ جس کی وجہ سے دالوں کے لئے گندم کی تھریشرز کا استعمال کرتے وقت فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ دال کی کٹائی کے دوران مزدوروں کی کمی بھی اپنی جگہ مسئلہ ہے اور ان سبھی محرکات کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال 1.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی) میں پاکستان کی مسلسل کم سرمایہ کاری اور عدم دلچسپی کی وجہ سے غذائی تحفظ اور ماحولیاتی استحکام جیسے اہداف حاصل نہیں ہو رہے جبکہ بھارت اور چین نے اپنے جی ڈی پی کا بالترتیب صفر اعشاریہ تین فیصد اور صفر اعشاریہ باسٹھ فیصد زرعی ٹیکنالوجی کے لئے مختص کر رکھا ہے نتیجتاً پاکستان کو فرسودہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے زیادہ پیداواری لاگت‘ کم پیداوار اور بین الاقوامی مارکیٹ میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ مسلسل مہنگائی نے پہلے ہی گوشت کے حصول کو بہت سے لوگوں کے لئے مشکل بنا دیا ہے‘اور وہ گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے دالوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قومی فیصلہ ساز غذائی بنیادی ضروریات کا عام لوگوں کے لئے حصول ممکن بنانے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کریں گے؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مریم سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)