کچھ چین سے ہی سیکھ لیں

ایک لمبے عرصے تک چین کی فضائی حدود میں سوائے پی آئی اے کے کسی اور ایئر لائنز کے طیاروں کو داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ تھی یہ جو 1969ءمیں امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان سے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر چین یاترا پر گئے تھے تو وہ پی آئی اے کی ہی بدولت گئے تھے چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں جنرل یحییٰ خان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سیاسی فراست‘ ذہانت‘ حکمت عملی اور دور اندیشی میں چینی قیادت لاجواب ہے ذرا سوچئے چین کی طرح سوویت یونین بھی تو گوادر کے گرم پانی تک پہنچنے کا خواہش مند تھا پر وہ زور زبردستی کر کے۔ بھی اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا جب کہ وہی کام چین نے کتنی خاموشی کے ساتھ ایک بھی گولی چلائے بغیر گفت و شنید سے کر لیا آج چین کا سیاسی اثر و رسوخ جنوبی امریکہ آسٹریلیا حتیٰ کہ افریقہ تک پہنچ چکا ہے ڈپلومیسی میں اس نے امریکہ کو کئی گام پیچھے چھوڑ دیا ہے سوچنے کا مقام ہے چین میں صحیح معنوں میں جو عوامی حکومت بنی وہ ہم سے دو سال بعد یعنی 1949ءمیں بنی اور اس عرصے میں چین ہر لحاظ سے فرش سے عرش پر پہنچ گیا ہر شعبہ زندگی میں اس کی بے مثال ترقی پر ایک دنیا حیران و ششدر ہے اس ملک کا عام آدمی اب اپنے رہنماﺅں سے یہ سوال کر رہا ہے کہ اس بات میں کیا قباحت ہے اگر ہم بھی چین کی قیادت نے‘ 1949ءسے لے کر اب تک زندگی کے شعبوں میں جو کام کئے ہیں ان کی تقلید کریں تاکہ وطن عزیز بھی اس کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے عقلمند حکمران وہ افراد کہلاتے ہیں جو ہر اس نظام سے وہ چیزیں مستعار لے لیتے ہیں جو عوام دوست ہوں اور جن پر عمل درآمد سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آ تی ہو کیا چین کی قیادت نے امریکہ میں رائج سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی بعض وہ چیزیں مستعار لے کر اپنے ہاں اس نظام میں شامل نہیں کیں کہ جو گو کہ کمیونزم کی چڑ تھیں پر جن سے عام آدمی کی معاشی حالت میں بہتری آ سکتی تھی ہم کو بھی انہی خطوط پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت 
ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں ملکی میڈیا میں جو غیر ضروری بحث کا سلسلہ چل نکلا ہے اسے صرف اسی طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے کرتا دھرتا سب سے پہلے قوم کو سادہ الفاظ میں بتلائیں کہ اس الیکشن کی لوازمات اور قانونی تقاضے کیا ہیں اور کیا ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں نے اب تک جو انٹرا پارٹی الیکشن منعقد کئے ہیں وہ کیا متعلقہ قوانین کے تقاضے پوراکرتے ہیں اور اگر نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن کے پاس ان کا ازالہ کرنے کے واسطے کون سا راستہ موجود ہے صرف اس کی وضاحت کرنے سے ہی اس معاملے میں میڈیا میں جو غیر ضروری بحث چھڑی ہوئی ہے اس کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ الزام درست ہے کہ خیبر پختونخوا میں افغان شہریوں کے ووٹ بھی درج کئے گئے ہیں تو الیکشن کمیشن کو فوراً سے پیشتر اس الزام کی تحقیقات کر کے ان کو کینسل کرنا ہو گااور ساتھ ہی ساتھ ان سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی فوری قانونی کاروائی کرنا ہو گی جنہوں نے یہ اندراج کیا ہے ۔ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد درج ذیل امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا مالاکنڈ لیویز انضمام کا فیصلہ موخر کر کے حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے اس قسم کے فیصلے منتخب حکومت کو ہی کرنے چاہئیں نہ کہ نگران حکومت کو کہ جس کا مینڈیٹ نہایت محدود ہوتا ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کی جو خراب صورتحال ہے وہ سب پر عیاں ہے تاہم آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی عوام کو پریشان کر رکھا ہے جیسا کہ ایک روز پہلے چینی اور چائے کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے‘ چینی کی بوری 6 ہزار 300 روپے سے بڑھا کر 7 ہزار 200 روپے کر دی گئی ہے جس کے بعد پرچون سیل میں چینی کی قیمت فی کلو 130 روپے سے بڑھ کر 150 روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ بعض علاقوں میں 160 روپے تک بھی فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرح چائے کی پتی کی قیمت بھی فی کلو 1600 روپے سے بڑھا کر 1660 روپے تک پہنچا دی گئی ہے‘ اس طرح کے آفٹر شاکس کے عوام بھی عادی ہو چکے ہیں‘ کئی گھرانوں نے تو اپنے نوالے کم کر دیئے ہیں اور اگر حالات ایسے ہی رہے تو غریب عوام صحیح معنوں میں فاقہ کشی پر مجبور ہو جائینگے‘ ہماری اہل اقتدار سے درخواست‘ التجا ہے کہ وہ مہنگائی اور خاص طور پر مصنوعی مہنگائی کے تدارک کے لئے اقدامات کریں۔