اہم قومی اداروں کی حالت زار

ہر محب وطن کو اس وقت بڑا دکھ ہوتا ہے جب وہ کسی کامیاب اور منافع بخش قومی ادارے کو گرتا دیکھے ‘پی آئی اے اس ملک کی پہچان تھی اس کی آن تھی اور اس کی ایک اپنی شان تھی اور ائر لائنز کی دنیا میں اس کا ایک منفرد مقام تھا آج مشرق وسطیٰ کی جتنی بھی ائر لائنز ہیں ان کو بنانے اور ان کے عملے کی تربیت میں پی آئی اے کا بہت بڑا کردار رہا ہے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں جب کہ ہماری قومی ائر لائنز کی حالت کیا ہے‘ اب تو اس کے مالی معاملات اس قدر دگر گوں ہیں کہ لگ یہ رہا ہے کہ ہمارے ارباب بست وکشاد کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا کہ اس کی نجکاری کر دیں ۔زیادہ عرصے کی بات نہیں خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس جسے عرف عام میں جی ٹی ایس کہتے تھے‘ کے ذریعے جڑے ہوئے تھے بلکہ جی ٹی ایس کی بسیں پشاور سے لاہور کے درمیان بھی چلا کرتی تھیں ‘عام آ دمی جی ٹی ایس میں سفر کرنے کو ترجیح دیتا تھا کیونکہ اس کی بسیں وقت مقررہ پر چلتی تھیں اور ان میں سفر ہر لحاظ سے محفوظ ہوتا تھا ‘ اس بس سروس اور پی آئی اے کی خصوصیات میں قدر مشترک یہ تھی کہ ان کی بسیں اور جہاز وقت مقررہ پر چلا کرتے ان کے عملے کی بھرتی کے وقت صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور ان اداروں کو خالصتاً کمرشل انداز میں چلایا جاتا کم و بیش یہی صورت حال پاکستان ریلویز کی بھی تھی جس دن سے ان اداروں کی ورکنگ میں سیاسی مداخلت شروع ہوئی وہ ڈانواں ڈول ہونا شروع ہوگئے ‘جی ٹی ایس نے ہمارے سامنے دم توڑا اور اب لگ یہ رہا ھے کہ قومی ائر لائنز اور ریلویز بھی کہیں دم توڑ نہ دیں فرنگی تقسیم ہند کے وقت وطن عزیز میں ایک نہایت ہی جامع ریلوے نیٹ ورک چھوڑ گئے تھے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سنگلاخ پہاڑوں میں جس مہارت سے وہ ریلوے لائن بچھا گئے تھے وہ انجینئرنگ کے ایک کرشمے سے کم نہیں‘ نہ صرف یہ کہ کراچی سے لے کر پشاور تک اور راولپنڈی سے لے کر کوئٹہ تک انہوں نے ریلوے ٹریک بنا دیا تھا انہوں نے راولپنڈی سے کوہاٹ ‘بنوں‘ لکی‘ ٹانک اور پھر منزئی تک ریلوے لائن بچھا دی تھی کہ جو جنوبی وزیرستان کے دھانے پر واقع ہے قیام پاکستان کے بعد ہمارے حکمران اس ٹریک کو بڑھا کر تنائی کے رستے فورٹ سنڈیمن سے ہوتے ہوئے کوئٹہ تک ایک متبادل ریلوے لائن بچھا سکتے تھے‘ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ریلوے کے اس ٹریک کی مناسب حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے چور چکار اس ٹریک کی پٹڑی تک اکھاڑ کر لے گئے ہیں ورنہ اسی ٹریک کو پیزو تک بڑھا کر ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی بذریعہ بنوں کوہاٹ پشاور سے بھی منسلک کیا جا سکتا تھا‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریلوے کا جو بنیادی انفراسٹرکچر فرنگی تقسیم ہند کے وقت ورثے میں ہمارے لئے چھوڑ گئے تھے ہم اس کی حفاظت نہ کر سکے کجا یہ کہ ہم اس میں مزید اصلاحات لاتے اس میں کوئی شک نہیں کہ روڈ ٹرانسپورٹ کے سفر کے مقابلے میں ریلوے کا سفر خاص کر بڑے بوڑھوں بچوں اور خواتین کیلئے زیادہ آرام دہ ہوتا ہے ریلوے غریب عوام کی سواری ہے پر اس ملک میں حکمرانوں نے کب ایسے منصوبوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے کہ جو عوام دوست ہوں ہیاں تو ہمیشہ ارباب اختیار پر اشرافیہ کی گرفت رہی ہے چونکہ ایک لمبے عرصے تک روڈ ٹرانسپورٹ کے مالکان ایوان اقتدار میں رہے یا اچھے سیاسی اثر و رسوخ کے مالک تھے انہوں نے قصداً ملک میں ریلوے کو پنپنے نہ دیا تاکہ وہ اپنی موت خود مر جائے اور اس کی جگہ ان کی روڈ ٹرانسپورٹ ملک میں پھلے پھولے ہمارے بر عکس ہمسایہ ممالک ایران اور بھارت میں ریلوے کے نظام کی طرف خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے ۔