دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین میں جو بھی قیادت برسر اقتدار ہی وہ یا تو سٹالن کی طرح غاصب تھی یا پھر خروشیف کی طرح منہ پھٹ اور لاابالی اور یا پھر پوڈگورنی اورگورباچوف کی طرح کمزور‘ ان میں لینن کی طرح دبنگ اور معاملہ فہم لیڈر کوئی نہ تھا اور اس صورت حال کاامریک کی سی آئی اے نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا روس کے موجودہ صدر پیوٹن ایک لمبے عرصے تک سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے کرتا دھرتا رہے ہیں وہ سوویت یونین کو توڑنے کی تمام امریکی سازشوں سے پوری طرح باخبر ہیں اور سوویت یونین کی نشاة ثانیہ چاہتے ہیں ان کو اس مقصد کے حصول کے واسطے روس کے عوام کی ایک بڑی اکثریت کی بھر پور حمایت حاصل ہے اس لئے ان کے خلاف امریکہ کی کوئی سازش بھی کامیاب نہیں ہو رہی ‘ روس کے عوام اس ضمن میں امریکہ سے بدلہ لینا چاہتے ہیں اور انکی دانست میں پیوٹن سے بہتر کوئی اور روسی لیڈر یہ کام سر انجام نہیں دے سکتا اس لئے پیوٹن بے دھڑک ہو کر اپنے مقصد کے حصول کی خاطر کام کر رہے ہیں دوسری طرف امریکہ کبھی یوکرائن تو کبھی کسی اور ملک کی ہلہ شیری کر کے روس کےلئے عالمی سطح پر مشکلات پیدا کر رہا ہے روس کی خوش قسمتی یہ ہے کہ چین کے ساتھ اسکے روابط میں گرمجوشی آ گئی ہے کل تک امریکہ کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ کبھی یہ دو ملک آپس میں شیروشکر بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ کافی عرصے تک چین اور باوجود اس حقیقت کے کہ ان دونوں کا تعلق کمیونسٹ بلاک سے تھا آپس میں کافی سردمہری کا شکار تھے ان کا یک جان دو قالب ہو جانا امریکہ کےلئے یقیناً ایک بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے‘ پیوٹن اور چین کی موجودہ قیادت نے آپس کے تمام فروعی اختلاف ختم کرکے دور اندیشی اور سیاسی فراست اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا ہے‘ امریکن سی آئی کو اب امریکی پالیسی سازوں نے یہ ٹاسک حوالے کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے چین اور روس کے تعلقات میں دراڑ پیدا کرے تاکہ ان کا آپس میں اتحاد ٹوٹے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ جب تک ان دو ممالک کے تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں پڑتا عالمی سیاست میں امریکہ کا طوطی نہیں بول سکے گا۔ان ابتدائی کلمات کے بعد آتے ہیں چنداہم امور کی طرف جو عالمی اور قومی سطح پر نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں ‘وطن عزیز کے عام آدمی کو یہ گلہ ہے کہ کنگ ظاہر شاہ سے لے کر آج تک کابل میں جو حکمران بھی آیا اس نے اپنے مسلمان بھائی ملک پاکستان پر بھارت کو ہر معاملے میں ترجیحی نظر سے دیکھا اور تو اور اس نے بھارت کے ایجنٹوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ سابقہ فاٹا کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر وہاں کے امن عامہ کو تاراج کریں جب کبھی بھی وطن عزیز میں کوئی فرد ریاست کے خلاف کوئی جرم کر کے افغانستان میں جا کر پناہ لیتا اور پاکستان افغانستان سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کرتا تو کابل کے حکمران اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیتے کہ ان کا رواج انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان افراد کو پاکستان کے حوالے کریں کہ جو ان کی پناہ میں افغانستان میں رہائش پذیر ہیں‘ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کے کہنے پر افغان حکمرانوں نے بھرپور کوششیں کیں کہ سابقہ فاٹا کے اندر رہنے والے عسکری اور سیاسی طور پرمضبوط عمائدین کی پیسوں کے عوض وفاداریاں خریدی جائیں‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سابقہ فاٹا کے عوام الناس نے پاکستان کی سر زمین سے اسی قسم کی محبت کا مظاہرہ کیا کہ جس کا مظاہرہ انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے سابقہ فاٹا کے دورے پر آئے ہوئے بھارت کی کانگریس پارٹی کے لیڈران سے سرد مہری کا مظاہرہ کر کے کیا تھا ‘سابقہ فاٹا کے عام آدمی کی اپنے وطن عزیز سے محبت لازوال ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ