موت کا رقص

کہا جاتا ہے نائن الیون میں تو تین ہزار ہلاکتیںہوئی تھیں پر اس واقع کے انتقام میں اب تک 45لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے اسرائیل فلسطین کے تنازعہ میں 16ہزار اموات ہوچکی ہیں جب کہ یوکرائن اور روس کی جنگ میں تین لاکھ سترہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں ‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں موت کا یہ رقص ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا یوں تو اس ملک کا بقول کسے آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے اور کرنے کے بہت کام ہیں پر فوری طور پر عام انتخابات وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ان کے بغیر ملک کی گاڑی کا جام پہیہ نہیں چل سکے گا ایک مرتبہ ملک میں آزادانہ شفاف الیکشن ہو جائیں تو اگلے مرحلے میں پھرجو حکمران بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں گے انہیں کمر کس کر درجنوں کام کرنے ہیں سب سے پہلے تو ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنا ہوگا ہر کام میں میرٹ کی پاسداری کرنا ہو گی حکمرانوں کو ملک کے عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے کا چلن اپنانا ہوگا جس کے واسطے ملک کے ہر شعبہ زندگی میں وہی وی آئی پی کا کلچر ختم کرنا ہوگا ملک کی معشیت ریونیو کے بغیر نہیں چلا کرتی اور پیسے درختوں پر نہیں اگتے ‘انہیں مالی طور پر آسودہ لوگوں سے حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ریکور کرنا ہوتا ہے اور پھر ملک کے عام آدمی کی روزمرہ کی ضروریات زندگی پر لگانا ہوتاہے ملک کے ماہرین معشیت کا کام ہوگا کہ وہ ان ممالک کی مثال سے سبق لیں کہ جنہوں نے آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کیا ہے آخر جو طریقہ کار اس مقصد کے حصول کے واسطے انہوں نے اختیار کیا ہے وہ ہم کیوں نہیں اختیار کرتے اسی طرح ملک کی خارجہ پالیسی کو ایسے وضع کرنا ہوگا کہ ہم سپر پاورز کی آپس کی چپقلش میں اپنا دامن بچا کر چلیں اور اپنے قریبی ہمسایہ ممالک جیسا کہ ایران ‘افغانستان چین اور روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھیں ‘اس ضمن میں ہمیں چین اور روس کے ساتھ بنا کر رکھنا ہو گی کہ اگر ان دو ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار رہے تو یہ اس ملک کی بقا ءکے واسطے بہت فائدے مند ثابت ہوں گے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اگلے روز لاہور میں مصنوعی بارش کا کا کامیاب تجربہ امارات کی مددسے کیا گیا جس سے سموگ کم ہوئی‘ اسے آپ سائنس کی کمالات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ سردار مہتاب عباسی کے بعد خاقان صاحب بھی ن لیگ چھوڑنے کے لئے پر تول رہے ہیں گو کہ تا دم تحریر انہوں نے اس بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا‘ اسی طرح موروثی سیاست کو بھی پارلیمانی جمہوریت کے لئے سم قاتل سمجھا جاتا ہے۔ اس ملک کا عام آدمی اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ہماری اکثر سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو اپنی پارٹی میں کوئی بھی ایسا فرد نظر نہیں آتا کہ جو ان کی سبکدوشی کے بعد ان کی پارٹی کی قیادت کرنے کا اہل ہو جو وہ اپنے خاندان کے افراد کو ہی پارٹی کے اندر اس کلیدی پوزیشن پر بٹھا دیتے ہیں کہ جہاں سے وہ ان کے بعد ان کی پارٹی کی قیادت سنبھال سکیں ۔افغان حکومت کی دعوت پر مولانا فضل الرحمان صاحب کابل جا رہے ہیں امید ہے وہ افغانستان کے ایوان اقتدار میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کابل کے حکام سے کھل کر مطالبہ کریں گے کہ آئے دن وطن عزیز کے اندر تخریبی کاروائیوں میں ملوث عناصر کو لگام دیں‘ مولانا صاحب کا یہ دورہ اپنی جگہ ‘پر فارن آفس کو چاہئے کہ افغان حکام سے مذاکرات میں مولانا صاحب کے اس دورے میں ان کی معاونت کے لئے ان کے ساتھ ایک اعلیٰ اختیاراتی سفارتی اہلکاروں کا وفد بھی بھیجے جو تمام زمینی حقائق سے با خبر ہو تا کہ مولانا صاحب کا یہ دورہ با اثر اور کامیاب ثابت ہو ۔