امسال غضب کا پالا پڑ رہا ہے ‘ وطن عزیز میں ہر سال دسمبر اور جنوری میں ویسے بھی بلا کی سردی پڑتی ہے پر اب کی دفعہ تو اس کا جواب نہیں‘ فلو اور نمونیہ سے بچے اور بوڑھے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ‘موسمیاتی تبدیلی نے گزشتہ موسم گرما میں بھی اس ملک کا بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں کافی نقصان کیا تھا اور اب سردی کا موسم بھی اپنا جوبنددکھا رہا ہے‘ قصہ کوتاہ موسمیاتی تبدیلی گرمی اور سردی دونوں موسموں میں اپنے جلوے دکھلا رہا ہے اس جملہ معترضہ کے بعد قومی اور عالمی سطح پر درپیش اہم امور کے بارے ہلکا سا ذکر بے جا نہ ہوگا۔وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کئی سیاسی مبصرین انہیں چوں چوں کا مربہ بھی کہہ کر پکارتے ہیں ‘دنیا میں صرف ان ممالک میں پارلیمانی جمہوریت پنپ سکی ہے کہ جہاں دو سیاسی جماعتیں ہیں اوریا پھر زیادہ سے زیادہ تین‘ اپنے ہاں تو صوبوں اور ریجنل سطح پر بھی اتنی زیادہ پارٹیاں ہیں کہ وہ انگلیوںپر گنی نہیںجا سکتیں اس پر طرہ یہ کہ ددجنوں کے حساب سے ہر الیکشن میں آزار امید وار کی حیثیت سے بھی کئی افراد حصہ لیتے ہیں جو پھر بعد میں ہوا کا رخ دیکھ کر اس سیاسی پارٹی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں کہ جس کے ایوان اقتدار میں آنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں ان کو اس وفاداری کے صلے میں اقتدار میں آنے والی پارٹی وزارت سے بھی نوازتی ہے اور دیگر کئی مالی مفادات سے بھی بقول۔کسے ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں اور سر کڑاہی میں ۔یہ جو پولیٹیکل سائنس میں ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح عام ہوئی ہے اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ اقتدار میں آنے کے واسطے ارکان اسمبلیوں کی بولی لگتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح مال مویشیوں کی منڈی میںہوتی ہے اس وقت بھی ملک میں پرانے جغادری قسم کے خرانٹ سیاست دان اندازے لگا رہے کہ کس سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں اور کس پارٹی کے پارٹی فنڈ میں موٹی رقم جمع کروا کر اس پارٹی کے قائد کے منظور نظر بن جائیں تاکہ جب کسی بھی اسمبلی کے ٹکٹ دینے کا مرحلہ آئے تو ان کو پارٹی ٹکٹ مل
جائے ‘لیکن یہی نہیں کہ تمام سیاستدانوں کی سیاست ذاتی مفاد تک محدود ہوتی ہے ‘وطن عزیز میں ایسے سیاستدانوں کی بھی کمی نہیں جوقوم کے لئے درد دل رکھتے ہیں جن کا کردارہر دور میں صاف شفاف رہا ہے اور ہمیشہ ملک وقوم کی ترقی و فلاح کا سوچا ‘اور آج بھی ان کی سیاست کا محورملک و قوم کی خدمت ہے‘ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے والے امید واروں کے کردار سے واقف ہوںکہ ان کا ذریعہ معاش کیا ہے‘ ان کی عمومی شہرت کیسی ہے‘ وہ کبھی کسی جرم میں ملوث تو نہیں رہے‘ پارٹی فنڈ کا آڈٹ بھی ضروری ہوتا ہے‘ یہ ریٹرننگ افسر کا کام ہوتا ہے کہ وہ الیکشن لڑنے والے ہر فرد کو ایسی چھلنی سے گزارے کہ اس کی شخصیت کا کوئی پہلو بھی کسی پردے میں چھپا نہ رہے ‘ہمارے ہاں رائج الیکشن کمیشن اور اس کے موجودہ قوانین میں انقلابی قسم کی اصلاحات کرنا لازمی ہے‘ جو ظاہر ہے آنے والے الیکشن کے بعدہی کہیں منتخب ہونے والی حکومت ہی کر پائے گی۔وزیراعظم نے یہ کہہ کر عوام کے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے کہ غیر قانونی تارکین اور قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے ‘انخلا پالیسی درست ہے ‘پاکستان میں آ ئرلینڈ کی آبادی کے برابر تارکین وطن آ چکے ہیں اتنی بڑی تعداد کو مزید قیام کی اجازت نہیں دیںسکتے۔