ایسا کہاں لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جیسے

جس عمارت کو کنیڈا کے وزیر اعظم بطور سرکاری رہائش گاہ استعمال کرتے ہیں وہ اتنی پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہے کہ کسی وقت بھی گر سکتی ہے‘ اسے قابل استعمال بنانے کے واسطے تین کروڑ 60لاکھ ڈالر درکار ہیں یہ تو ایک دنیا جانتی ہے کہ کنیڈا کی معیشت بڑی مضبوط معیشت ہے اور وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر مندرجہ بالا رقم بہ آسانی خرچ کی جا سکتی ہے ان کے لئے یہ معمولی بات ہے‘ اس حقیقت کے باوجود اس کے وزیر اعظم نے کئی برسوں سے وزیر اعظم ہاﺅس کی مرمت نہیں کروائی کہ ان کے اس اقدام پر ان کے مخالفین کیا کہیں گے اور کنیڈا کے عوام میں اس اقدام سے کیا تاثر ابھرے گا ‘اسی طرح کینیڈا کے وزیر اعظم کے سرکاری استعمال کے واسطے مختص جہاز کی حالت بھی مخدوش ہے اس کی نشستیں پرانی ہیں اب آپ اندازہ لگا لیں کہ جس ملک کے حکومتی عہدہ داران جائز اخراجات سے بھی عوام کے سامنے جواب دہی سے کتراتے ہوں ان کی اعلیٰ و ارفع اخلاقیات کا ذکر کر کے اس ملک کا ہر لکھاری کا دل کیوں نہ خوش ہو اور وہ یہ دعا کیوں نہ کرے کہ خدا اس قسم کی لیڈرشپ ہر ملک کو فراہم کر دے اس ضمن میں ایک دوسری بات بھی پڑھ لیجیے گا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب من موہن سنگھ بھارت کے وزیر اعظم تھے ان کو ایک سمری لکھی گئی کہ چونکہ وزیر اعظم کے زیر استعمال گاڑی پرانی ہو چکی ہے اسلئے ان کے استعمال کے واسطے ایک نئی بی ایم ڈبلیو گاڑی خریدنے کی اجازت دے دی جائے کہ جس کی اس وقت قیمت 3کروڑ روپے کے لگ بھگ تھی ‘من موہن سنگھ نے اس سمری پر لکھ دیا کہ اتنی مہنگی گاڑی خریدنے کی کیا ضرورت ہے اس کے بجائے بھارت میںہی تیار کردہ گاڑی جس کا نام ambassadorتھا خریدی جائے کہ جو 22لاکھ میں پڑتی تھی اور پھر من موہن سنگھ کے حکم کے مطابق ایمبیسیڈر گاڑی کوہی خریدا گیا‘سادگی اور قناعت سے بہتر کوئی شیوہ نہیں ہے‘بہلول دانا کا نام تو آپ نے ضرور سناہوگا وہ مشہور عباسی بادشاہ خلیفہ ہارون رشید کا چچا زاد بھائی تھا پر اس کی زندگی اور چال چلن مجذوبوں جیسا تھا وہ ہارون رشید کو بھی کھری کھری سنا دیتا ہے پر وہ اس کی باتوں کا برا نہیں مناتا تھا ایک مرتبہ وہ اس نئے محل کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ جو ہارون رشید نے تازہ تازہ بنایا تھا ‘بہلول کو اس کے قریب سے گزرتے دیکھ کر اس نے اس سے کہا بہلو ل ذرا دیکھو تو یہ محل تمہیں کیسا لگا‘ بہلول نے جواب دیا کہ اگر تم نے یہ محل حرام کی کمائی سے بنایا ہے تو یہ خیانت ہے اور اگر حلال کے پیسوں سے تعمیر کیا ہے تو یہ اسراف ہے‘ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم میں بحیثیت قوم اسراف کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھراہواہے‘ اب دیکھئے نا‘ اگلے روز پنجاب کے ایک شہر میں شادی کی ایک تقریب میں دولھا میاں بارات میں اپنی دلھن لانے سسرال کے گھر ہیلی کاپٹر لے گئے‘۔علم و حکمت کی کتاب نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ اشرافیہ خصوصاً ارباب اقتدار کو سادہ زندگی گزارنا چاہیے ان کی بودو باش اور رہن سہن ملک کے عام آدمی کی طرح ہو ورنہ بصورتِ دیگر عام آدمی کے دل میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات ابھریں گے ۔ الیکشن کمیشن نے جو 80 نکاتی انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے پر ضرورت اس امر کی ہوگی کہ اس پر من و عن عمل درآمد بھی کیا جائے۔