زمیں کھا گئی آ سمان کیسے کیسے 

سردار اورنگزیب خان گنڈہ پور سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے بارے میں جتنا لکھنا چاہئے تھا اتنالکھا نہیں گیا ‘ وطن عزیز نے جو دیانت دار لیڈر پیدا کئے انکے ذکر میں کنجوسی کا مظاہرہ نہی‘ ہونا چاہئے ‘جن سیاسی رہنماﺅں نے بانی پاکستان کے ساتھ کام کیا اور ان کو قریب سے دیکھا ‘ انہوں نے قائد اعظم کے کردارسے بہت کچھ سیکھا آج کے کالم کے ابتدائی حصے میں ہم ان میں سے چند شخصیات کا ذکر کرنا چاہیں گے مثلاً سردار اورنگزیب خان گنڈہ پور کے بارے میں اتنا نہیں لکھا گیا کہ جتنا ان کا حق تھا ‘ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا اور وہ وہاں سے بننے والے خیبر پختونخوا کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے‘ وہ 1943میں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے ان کے بدترین سیاسی مخالفین بھی اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ ان کی مالی دیانتداری مثالی تھی انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں اس اراضی میں دو انچ کا بھی اضافہ نہ کیا کہ جو ان کو ان کے والد کی طرف سے ورثے میں ملی تھی ‘اس دور میں اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک اور سیاسی لیڈر جن کا نام سردار عبد الرب نشتر تھا ان کی مالی دیانتداری کے بھی ازحد چرچے تھے‘ سردار اورنگزیب گنڈہ پور اپنے سیاسی حریفوں کے نشانے پر تو تھے ہی ان کی اپنی پارٹی کے اندر بھی ان کے حاسدین کی تعداد کم نہ تھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ سخت دل برداشتہ ہو کر فیصل آباد منتقل ہو گئے تھے جہاں بھی ان کا موروثی گھر تھا‘ انہوں نے وہاں ہی وفات پائی اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوئی بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ 23 مارچ 1940ءمیں لاہور کے منٹو پارک میں جو قرارداد پاکستان پیش کی گئی اسکے پیش کرنےوالے محرکین میں سردار اورنگزیب گنڈہ پور کا نام بھی آتا ہے اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کی دیانتداری کا بھی یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے ایک الیکشن لڑنے کے اخراجات برداشت کرنے کے واسطے پشاور میں واقع اپنے گھر کو فروخت کر دیا تھا اب اس قسم کے لیڈروں کو چراغ لے کر بھی تلاش کرو تو ملنا مشکل ہے۔ اب آتے ہیں تازہ ترین ایشوز پر ایک ہلکا سا تبصرہ کرنے کی طرف ‘صحت کارڈ کے دوبارہ اجرا پر حکومت اور انشورنس کمپنی میں ڈیڈ لاک کی خبر تشویشناک ہے ‘خدا لگتی یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صحت کارڈ ہی دو ایسی سکیمیں ہیں کہ جن کو زبردست عوامی پذیرائی ملی ہے اور ان دونوں کو جاری و ساری رکھنا اس ملک کے عام آدمی کی فلاح کے واسطے بڑاضروری ہے وفاقی دارالحکومت کے تمام سیکٹرز میں سائیکل ٹریکز بنانے کا منصوبہ ایک صائب منصوبہ ہے اس کے ایک سے زائد فوائد ہیں پہلی بات تو یہ کہ اس سے اسلام آباد میں فضائی آلودگی کم ہو جائے گی دوسری بات یہ ہے کہ اس سے دھیرے دھیرے کئی بیماریوں مثلاً بلڈ پریشر امراض قلب ‘ شوگر جوڑوں کے درد کا تدارک ہو گا‘ اس قسم کا کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا پر چلو دیر آید درست آید ‘اب بھی اس پر عمل درآمد کے انسانی صحت کےلئے کئی فوائد ہیں۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کروڑوں انسان زن و مرد روزانہ اپنے معمولات زندگی نبٹانے سائیکلوں پر آتے جاتے ہیں اس قسم کے منصوبے صرف اسلام آباد تک ہی محدود نہیں رکھنے چاہئیں بلکہ ان کا اجرا ملک کے ہر بڑے شہر میں کرنا ضروری ہے اس سے ملک میں وی وی آئی پی کلچر کی کمر بھی ٹوٹے گی اور عوام سادگی کی طرف مائل ہوں گے نیز ملک میں پٹرول اور ڈیزل پر روزانہ جو بے پناہ خرچہ اٹھتا ہے اس کو بھی بچایا جاسکے گا ۔ ایک جمہوری معاشرے میں عوام کو کسی بھی مسئلے پر احتجاج کرنے کا حق ہوتا ہے پر ضروری یہ ہے کہ وہ شائستہ انداز میں کسی پارک یا کھلے میدان میں کیا جائے نہ کہ ایسی جگہ کیا جائے کہ جس سے خلقت خدا کے روزمرہ کے معمولات زندگی متاثرہوں روڈ بند ہو جائے‘ ایمرجنسی کی حالت میں مریض ہسپتال نہ پہنچ سکیں ‘سکول اور کالجوں کے طلباءوقت مقررہ پر امتحان کا پرچہ دینے امتحانی مراکز نہ پہنچ پائیں اور ان کا تعلیمی سال ضائع ہو جائے‘کیوں ہمارے سیاست دان اس اہم معاملے میں اتفاق رائے سے ہر شہر میں اس مقصد کے واسطے کسی پارک یا کھلی جگہ کا انتخاب نہیں کرتے اس قسم کے طرز عمل سے تو وہ عام آدمی کی حمایت کھو رہے ہیں ۔