قائد کی باتیں

25دسمبر کو بانی پاکستان قائد اعظم ؒ کا یوم ولادت ہے اسلئے بہتر ہو گا کہ اس موقع کی مناسبت سے آج ہم قائد اعظم کے حوالے سے ہی ان کی باتیں کریں۔ بانی پاکستان کی شخصیت کے ہر پہلو میں نئی نسل کے واسطے ایک سبق تھا وہ ایک سچے کھرے انسان تھے جو انمول تھے وہ ہر قسم کے تعصب فرقہ واریت کنبہ پروری اور لسانیت جیسی قباعتوں سے پاک صاف تھے ‘وہ اول و آخرپاکستانی تھے رشوت اور سفارش کے وہ سخت خلاف تھے اور اسراف کے بھی سخت مخالف ‘ان کے ایک اے ڈی سی کی کتاب کے مطالعہ سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگرہوتے ہیں ایک مرتبہ جب ان کے اے ڈی سی نے ان سے یہ پو چھا کہ سر کل گورنر جنرل ہاﺅس میں آپ کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے تو اس کے شرکا کے واسطے چائے کا بندوبست کیا جائے یا کافی کا‘ تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ لوگ اپنے گھروں میں ناشتہ کر کے نہیںآئیں گے‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے بعد میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس میں سرکاری اجلاسوں میی شرکا کےلئے فائیو سٹارہوٹلوں سے snacksاور چائے پانی کے انتظام پر جس بے دردی سے قومی خزانے کو خرچ ہوتے دیکھا ہے تو یہ جملہ ہمارے لبوں پر آیا کہ مال مفت دل بے رحم ۔قائد اعظم جس سرکاری میٹنگ کی صدارت کرتے اس میں شرکا کی میز پر صرف پینے کے پانی کے جگ رکھے جاتے‘ اس پر ہمیں یاد آیا کہ پچھلی صدی کے ایک اور عظیم لیڈر ما ﺅز ے تنگ کے دور میں بھی سرکاری اجلاسوں میں اسراف نہیں ہوتا تھا اور شرکاءکی خاطر تواضع صرف قہوہ سے کی جاتی تھی ‘سرکار کے پیسوں پر اللے تللے نہیں کئے جاتے تھے‘ قائد اعظم کے ہرکام اور اقدام میں ایک سبق پنہاں ہوتا وہ اپنے فعل سے عوام کو سبق دیتے قائد کے ایک ڈرائیور حنیف آزاد نے جو بعد میں فلم انڈسٹری سے بطور اداکار بھی منسلک رہے تھے اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے کئی مرتبہ قائد کو رات کے وقت گورنر جنرل ہاﺅس کی فالتو بتیاں بجھاتے دیکھا ہے‘ نیا نیا پاکستان بنا تھا‘ ہندوستان سے مہاجرین دھڑا دھڑ کراچی آ رہے تھے‘ کراچی میں ان کو گھروں کی الاٹمنٹ کے واسطے کمشنر کراچی سید ہاشم رضا کی قیادت میں ایک کمیٹی کام کر رہی تھی ‘ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مہاجر نے جب ان سے کہا کہ وہ کمشنر کو یہ سفارش کر دیں کہ ان کو آﺅٹ آف ٹرن مکان الاٹ کر دیا جائے تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ان کے ایک قریبی رشتہ دار ان سے ملنے گورنر جنرل ہاﺅس گئے اور قائد سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وزٹنگ کارڈ پر کزن آف قائد اعظم لکھ دیا ‘قائد نے اپنے ملٹری سیکرٹری سے وہ کارڈ لے کر سرخ سیاہی سے کزن آ ف قائد اعظم کا لفظ کاٹ کر انہیں کہا کہ اسے کہہ دیا جائے کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے اور اس سے ملاقات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس وقت وہ فارغ نہیں ہیں اور پھر کسی وقت ان کو بلا لیا جائے گا۔قائد اعظم کی ذات سے منسوب اس قسم کے واقعات کو کتابی شکل میں طلبا ءکو تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اپنے قائدکی زندگی کے مختلف پہلوﺅں سے آگاہ ہو سکے ‘اورمستقبل میں ان کے کردار کو اپنے لئے نشان منزل بنا ئے ۔