امریکہ کا نیا ٹارگٹ 

 امیر جماعت اسلامی کے اس بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ امریکی افواج ہر خطے میں فساد کی جڑ ہیں ‘دوسری جنگ عظیم کے بعد تو امریکہ کا ٹارگٹ سوویت یونین تھا جس کو ٹکڑے کرنے میں بالآخر وہ ایک دن کامیاب ہو گیا‘ دور حاضر میں اس کی تمام تر کوشش دو مقاصد حاصل کرنے کی جانب ہے اولاً یہ کہ دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوے چین کے سیاسی اثر و نفوذ کو ختم کیا جائے‘ دوسرا یہ کہ ان ممالک کو بھی ہر لحاظ سے کمزور کیا جائے کہ جو اسرائیل سے مخاصمت رکھتے ہیں ‘امریکہ کے اندر یہودیوں کی ایک بہت ہی مضبوط سیاسی لابی ہے کہ جس کی حمایت کی بنا امریکی صدر پر بھی نہیں مار سکتا اور تواور وہاں کی یہودی لابی کی سپورٹ کے بغیر کوئی بھی امریکی امریکہ کا صدر بننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ‘امریکہ کے صدر نے اگلے روز886 ارب ڈالر کاجو دفاعی بجٹ منظور کیا ہے اس میں 800ملین ڈالرز یوکرائن کی امداد کے واسطے مختص ہیں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا کلیجہ سوویت یونین کو توڑنے کے بعد بھی ٹھنڈا نہیںہوا اور وہ اب یوکرائن کی ہلہ شیری کر کے اس خطے کے امن کو پھر دا پر لگا رہا ہے‘ اسی طرح وہ چین کے خلاف تائیوان کو بھی ورغلا رہاہے‘ سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود اسرائیل غزہ پر بمباری کرنے سے باز نہیں آ رہا اگر اس نے مزید اسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ کیا تو اس کا انجام بھی لیگ آف نیشنز سے کوئی زیادہ مختلف نہیںہو گا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد بنی تھی‘ پر چند برس بعد جب بعض ممالک کی ہٹ دھرمی کے آگے وہ سرنگوںہوئی تو وہ ٹوٹ گئی اور اس کی جگہ پھر اقوام متحدہ کے ادارے نے جنم لیا۔وطن عزیز میں بھی موسمیاتی تبدیلی کئی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے‘ صدر مملکت کا یہ بیان بجا ہے کہ موسیمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنے کے لئے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔امریکہ نے حال ہی میں یوکرین کو ایسے راکٹ فراہم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے، جو 80 کلومیٹر تک انتہائی درستی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ راکٹ یوکرین کو اس یقین دہانی کے بعد فراہم کیے جا رہے ہیں، جس کے مطابق وہ انہیں روسی سرزمین پر استعمال نہیں کرے گاتاہم پیسکوف نے کہا ہے کہ ماسکو کو ایسی یقین دہانیوں پر بھروسہ نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ روسی سرزمین پر ان راکٹ حملوں کے ممکنہ خطرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے مناسب اقدامات بھی کیے جائیں گے لیکن اس امریکی اقدام کو انتہائی منفی حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی سپلائی یوکرینی قیادت کو تعطل شدہ امن مذاکرات کی بحالی سے دور رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ یوکرینی حکام اپنے اتحادیوں سے ایسے میزائل سسٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو بیک وقت سینکڑوں راکٹ فائر کر سکیں اور طویل فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنائیں؛ یوکرینی حکام کو امید ہے کہ اس طرح جنگ کا پانسہ ان کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ‘ہم نے تیزی سے یوکرین کو بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھیج دیا ہے تاکہ وہ میدان جنگ میں لڑ سکے اور مذاکرات کی میز پر ممکنہ طور پر مضبوط ترین پوزیشن میں رہے۔قبل ازیں روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے بھیجی گئی اسلحے کی ہر کھیپ کے ساتھ براہ راست تصادم کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔