دنیا کی بے ثباتی اورہم 

سال رواں اب کچھ دنوں کا مہمان ہے جب بھی ہر سال اپنے اختتام کو پہنچنے لگتا ہے تو وہ اپنے پیچھے پرانی یادوں کا ایک ذخیرہ چھوڑ جاتا ہے جو دوست عزیز اور جان جگر اس سال دنیا سے رخصت ہوئے ہوتے ہیں ان کا غم ان کے چاہنے والوں کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے اور وہ اس امید پر اپنے آپ کو یہ تسلی دے کر کر اپنا غم بھلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ حشر کے دن اپنے بچھڑوں سے پھر ملاقات ہوگی اور وہ ایسا ملاپ ہو گا جو ابدی ہوگا اس میں پھر جدائی کا عنصر شامل نہ ہوگا وہ کب ہوگا اس کے لئے البتہ ایک صبر آزما انتظار درکار ھو گا یہ بھی انسان کو کب علم ہوتا ہے کہ اگلے سال کے آخری ماہ تک اس کے عزیز و اقارب میں اور کون کون اس جہان فانی میں نہیں ہوگا تب ہی تو شاعر نے دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں کیا خوب کہا ہے‘جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہو گا انسان روتے ہوئے اس جہان فانی میں آتاہے اور جب جا رہا ہوتا ہے تو لوگ رو رہے ہوتے ہیں درج ذیل اشعار سے اس دنیا کی بے ثباتی کا مزید پتہ چلتا ہے‘ جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا ‘دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہوگا ‘یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے‘افسوس ہم نہ ہوں گے ۔ہمیں کبھی کبھی بعض بڑے بڑے زمینداروں کی یہ بات سن کر ان کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے جو اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ وہ ہزاروں جریب زمین کے مالک ہیں وہ یہ بات نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف چھ فٹ زمین کے مالک ہیں کہ جس میں کسی دن ان کو لٹا کر ان کو مٹی کی چادر میں ڈھانپ دیا جائے گا یہ جو لفظ ملکیت ہے اس کا ذکر تو پرانی مذہبی کتابوں میں ملتا ہی نہیں ‘زمین کے لئے ہمیشہ لفظ متاع استعمال ہوا ہے ‘کہا گیا کہ متاع میں انسان کاشت کر کے اس سے حاصل ہونے والی اشیا خوردنی جیسا کہ چاول گندم گنا وغیرہ استعمال کرے ۔ملکیت کے بارے میں اسلامی سکالرز نے کہا ہے کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس کے بعد چند تازہ ترین درج ذیل ایشوز کا ذکر بے جا نہ ہو گا یہ خبر خوش آئند ہے کہ افغانستان متنازعہ امور پر پاکستان سے مذاکرات کے لئے اب تیار ہے‘ اس ضمن میں ایران ایک مفید کردار ادا کر سکتا ہے‘ خدا لگتی یہ ہے کہ اس علاقے کے یہ تین ممالک یعنی پاکستان ‘افغانستان اور ایران سپر پاور پالیٹکس سے جان چھڑا کر آپس میں اگر شیر و شکر ہو جائیں تو یہ بات تینوں کے لئے بے حد کار آمد ہو‘ پر یہ تب ہی ممکن ہے کہ ان تین ممالک میں ارباب اقتدار ایسے افراد ہوں کہ جو سیاسی فہم کے مالک بھی ہوں اور دور اندیشی کے بھی ۔ وطن عزیز میں مختلف بیماریوں سے اموات تو اپنی جگہ پر سردی کے سیزن میں ہر سال گیس ہیڑرز سے گیس کی لیکج اور بجلی کے ہیٹرز کی الیکٹرک شارٹ سر کٹنگ کی وجوہات سے بھی سینکڑوں افراد روزانہ لقمہ اجل ہوتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گیس کی سپلائی کے مختلف مراحل کو فول پروف بنانے والے افراد یامحکمے اور اسی طرح بجلی کی شارٹ سرکٹنگ کو روکنے کے لئے ذمہ دار ادارے یا افراد اپنے فرائض میں غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کا مستقل حل نکالنے کی طرف متعلقہ سرکاری ادارے کوئی ٹھوس حل نہیں نکال رہے ۔اس کے علاہ ٹریفک کے قوانین کی عدم پیروی سے ہماری سڑکوں پر بھی روزانہ ٹریفک کے حادثات میں بھی لاتعداد افراد جان کی بازی ہار رہے ہیں ان امور کو درست کرنا بھی بہت ضروری ہے وطن عزیز کو کئی مسائل کا سامنا ہے جن کو حل کرنے کے واسطے ملک میں ایسی قیادت کی ضرورت ہو گی کہ جس کو قدرت نے دور اندیشی اور معاملہ فہمی کی صفات دے رکھی ہوں آ بادی میں اندھا دھند اضافہ کروڑوں بچوں کیلئے متناسب خوراک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نشوو نمااور پرائمری ایجوکیشن کا فقدان وہ مسائل ہیں کہ جن کو اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ ہماری نئی نسل کہ جو مارا مستقبل ہیں کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔