غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی 

اس بات میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ وطن عزیز میں اکثر سرکاری محکموں میں سٹاف کی بھرمار ہے کسی اسامی کو اگر ایک فرد سے بخوبی چلایا جا سکتا ہے تو وہاں اسے چلانے کے لئے پانچ پانچ افراد بھرتی ہیں ماضی قریب میں کسی دور میں ڈاﺅن سائزنگ یا رائٹ سائزنگ کے نام پر ایک مشق ضرور کی گئی تھی تاکہ ہر سرکاری محکمے میں ضرورت سے زیادہ موجود افرادی قوت کو کم کیا جائے تاکہ سرکاری خزانے پر سے کچھ مالی بوجھ ہلکا کیا جا سکے پر بعد میں حکومت نے عوام کو کھل کر نہیں بتایا کہ اس مشق کے کیا نتائج بر آمد ہوئے‘ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر نے اگلے روز کہا ہے کہ وہ 17 وزارتیں ختم کر کے 300 ارب عوام پر خرچ کریں گے بہتر ہوتا اگر وہ ذرا اپنے بیان میں یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ یہ 17 وزارتیں آ خر ہیں کونسی کہ جن کو وہ برسر اقتدار آ کر ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اس ملک میں اب تک وزارتیں ریوڑیوں کی طرح ان سیاست دانوں میں تقسیم کی جاتی رہی ہیں جو اپنی سیاسی وفاداریاں بدل کر ارباب اقتدار کے ساتھ ایوان اقتدار کا حصہ بنتے رہے ہیں اس روش سے اگر احتراز کر لیا جاتا ہے تو زیادہ وزارتوں کے قیام کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے قوم کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ 300 یونٹ تک بجلی مفت دیں گے اور کسانوں کو 1500 ارب سبسڈی بھی دیں گے اس ضمن میں ہماری تمام سیاست دانوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ عوام سے ایسے بلند و بانگ وعدے نہ کریں کہ جو وہ اقتدار میں آ کر پورا کرنے کے قابل نہ ہوں‘ آرمی چیف کے اس بیان سے شاید ہی کوئی اختلاف کر سکے کہ وطن عزیز کے دشمن مذہبی نسلی اور سیاسی کمزور یوں کو استعمال کرتے ہوے وطن عزیز میں دراڑیں ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ کہ بیان بازی اور پروپیگنڈے کی نفی کرنا ہو گی اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاﺅ کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے ہر قسم کے پروپیگنڈے کو مادر پدر آزادی ملی ہے جس 
سے اس ملک کے ازلی دشمن بے پناہ فائدہ اٹھا کر وطن عزیز کی بنیادوں میں پانی دے رہے ہیں سنسر شپ کوئی اچھی شے نہیں سمجھی جاتی پر ملکی مفاد یا معاشرے میں جوان نسل کو بے راہ روی سے روکنے کے لئے کسی نہ کسی جگہ پر کبھی نہ کبھی اس کا اطلاق ضروری بھی ہوتا ہے ورنہ بعض مرتبہ برین واشنگ جوان نسل کے لئے سم قاتل بن سکتی ہے سینسر بورڈ میں البتہ ان افراد کی تعیناتی کی جائے جو اعلیٰ اقدار اور اخلاقیات کے مالک ہونے کے علاہ کسی بشری کمزوری کا شکار بھی نہ ہوں اور عالم فاصل بھی ہوں تاکہ جن خدشات کا آرمی چیف نے عندیہ دیا ہے ان کا ازالہ ہوتا رہے اور ملک عوام خصوصاً نئی نسل کسی مسئلے پر کسی ا بہام کا شکار نہ ہو کیونکہ وطن عزیز کے دشمن قومیت لسانیت اور فرقہ واریت کا سوشل میڈیا پر بڑی شدت سے پرچار کر کے نئی نسل کے اذہان میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ اپنے قارئین کے بے حد اصرار پر ہم اپنے آج کے کالم کا اختتام چند درج ذیل اقوال زریں سے کریں گے کہ جو علم کا خزانہ ہیں جب ہم اس قول کو پڑھتے ہیں کہ اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لئے اولاد پیدا کرو برباد ہونے کے لئے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لیے عمارتیں کھڑی کرو تو یکدم ہمارا خیال اس ملک کی اشرافیہ کی طرف جاتا ہے کہ جو اس قول کی نفی کرتے ہوئے اس میں درج ہدایت سے کس قدر زیادہ مختلف زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے طرز زندگی سے اس قول کی روزانہ دھجیاں اڑاتے ہیں ہمارے معاشرے میں آ ٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے افراد نہیں پائے جاتے کہ جن کو قدرت نے لاتعداد مال و دولت سے نوازا ہو اور انہوں نے اپنی دولت سے اپنے اپنے علاقوں میں غریب عوام کے علاج کے لئے فری ہسپتال یا ڈسپنسریاں کھول رکھی ہوں یا یتیم خانے قائم کئے ہوں ان رفاعی کاموں کے بجائے انہوں نے اپنے اربوں روپے بنکوں میں رکھے ہوتے ہیں جن پر وہ ہر ماہ کروڑوں کا سود کھاتے ہیں اور یہ بات بہ آ سانی بھول جاتے ہیں کہ سود کھانے والے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے وہ خدا سے جنگ کر رہا ہو‘ ہماری اشرافیہ کے افراد محل نما بنگلوں میں رہتے ہیں اگر کسی کو اس بیان پر شک ہو تو وہ ان رہائش گاہوں پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالے کہ جو ہماری اکثر سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے مسکن ہیں۔