ڈیورینڈ نام کے دو فرنگیوں نے بر صغیر میں کافی عرصے انگلستان کی حکومت کے لئے خدمات سر انجام دہی ہیں ایک کا نام مورٹیمر ڈیورینڈ تھا اور اس کی وجہ شہرت برصغیر ہند میں برطانیہ اور افغانستان کی سرحدات پر کھینچی ہوئی وہ لائن تھی جو برٹش گورنمنٹ اور اس وقت کے افغانستان کے حکمران عبدالرحمان خان کے درمیان طے ہوئی تھی اس بارڈر کا 1893میں تعین کیا گیا جو افغاستان کر برٹش انڈیا سے جدا کرتی تھی اور جو تاریخ کی کتابوں میں ڈیورینڈ لائن کے نام سے مشہور ہے‘ مورٹیمرکا انتقال 1924میں ہوا دوسرے کا نام ہینری مےہون ہینری ڈیورنڈ تھا اور وہ ڈیرہ اسماعیل خان کنٹونمنٹ میں واقع ایک گرجے کے احاطے میں دفن ہے مقامی آ بادی میں وہ سر کٹا انگریز کے نام سے مشہور ہو گیا تھا اور اس کی وجہ تسمیہ۔ یہ تھی کہ وہ جب نواب آف ٹانک سے ملنے ٹانک گیا اور یہ 1871کا واقعہ ہے تو اسکے محل کی طرف وہ ہاتھی پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ راستے میں واقعہ ایک گیٹ کو کراس کرتے وقت اس کا ہاتھی بدک گیا جس کے نتیجے میں ڈیورینڈ کا سر اس دروازے کے اوپر کے حصے سے ٹکرایا اور وہ وہاں گر کر ہلاک ہو گیا اس دروازے کا نام اس دن سے ڈیورنڈ گیت پڑ گیا اور آج بھی وہ اسی نام سے پہچانا جاتا ہے یہ واقع 1871 دسمبر میں رونما ہوا تھا اس ڈیورنڈ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک گرجا گھر کے احاطے میں دفن کر دیا گیا چونکہ جس حادثے میں وہ ہلاک ہوا تھا اس میں اس کا سر اس کے بدن سے کٹ گیا تھا لہٰذا جب وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دفنایا گیا تو اس کی قبر سر کٹا انگریز کے نام سے مشہور ہو گئی اور کئی لوگ اس ڈیورنڈ کو اس ڈیورنڈ کے نام کے ساتھ کنفیوز کر دیتے ہیں کہ جس نے ڈیورنڈ لائن 1893 میں کھینچی تھی یاد رہے کہ ڈیورینڈ لائن کی بعد میں برٹش گورنمنٹ اور حکومت افغانستان کے درمیان 1919میں راولپنڈی میں ہونےوالے ایک اور معاہدے میں دونوں فریقین نے توثیق بھی کر دی تھی ان ابتدائی کلمات کے بعد چند اہم قومی اور عالمی امور کی طرف آتے ہیںیوکرائن اور روس کی جاری جنگ میں روس کا یوکرائن کے اہم شہر مارنیکا پر قبضہ کو روس کےلئے ایک اہم سٹریٹیجک کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔جرمن پولیس، صحت کے حکام اور ماحولیاتی تحفظ کے لئے سرگرم گروپوں نے حکومت سے اتوار کو نئے سال کی شام کی تقریبات سے قبل آتش بازی پر مکمل پابندی سمیت نئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے‘ آتش بازی کے دوران حفاظتی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق سرکاری سطح پر نرمی دکھانے کی وجہ سے ہر سال ملک بھر کی سڑکوں پر لاکھوں یورو مالیت کے آتش بازی کے سامان کے استعمال اور چھوٹے پیمانے پر کئے جانے والے دھماکوں کے باعث افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں‘ اس صورتحال نے طویل عرصے سے غیر ملکی سیاحوں کو بھی حیران کر رکھا ہے‘ مرکزی جرمن پولیس یونین جی ڈی پی کے سربراہ نے جمعرات کو شائع ہونے والے تبصروں میں رائنیشن پوسٹ اخبار کو بتایا”جب سے پچھلے سال برلن بلکہ روہر کے ضلع میں اور یہاں تک کہ عام طور پر پرامن شہر بون میں بھی بہت سی جگہوں پر حد سے زیادہ تشدد ہوا، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ غلط ہو گیا ہے‘انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں آخر کار اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔ جرمنی میں نئے سال کی شام پر سڑکوں کے بیچوں بیچ آتش بازی کرنے کی روایت طویل عرصے سے رہی ہے لیکن گزشتہ سال برلن کے مناظر نے اس روایت پر نظر ثانی کے مطالبوں کو جنم دیا۔ پولیس کے مطابق اس دوران آتش بازی کا رخ ہنگامی خدمات مہیا کرنے والوں کی سمت موڑا گیا۔ پولیس کے مطابق وہ گزشتہ بار نئے سال کے موقع پراکثر آتش بازی کرنے والوں کی جانب سے حملوں کی زد میں آتے تھے“ ایمرجنسی سروس کے کارکنوں اور نئے سال کا جشن منانے والے دوسرے لوگوں کے خلاف اس مرتبہ دوبارہ حملو ں کی توقع ہے۔ پولیس تشدد کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر اہلکاروں کی تعیناتی کی تیاری کر رہی ہے‘ہم نے پہلے ہی آتش بازی کے سامان کی فروخت پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟ ۔
جرمن فائر بریگیڈ ایسوسی ایشن کے سربراہ کارل ہائنس بانزے نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایاکہ ریاست کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ایمرجنسی سروس کے کارکنوں پر حملہ کرنے والوںکو قانون کی پوری طاقت کے ساتھ سزا دی جائے‘ غیر منافع بخش تنظیم انوائرمینٹل ایکشن کے سربراہ یورگن ریش نے بھی رائنیشن پوسٹ کے لئے اپنے تبصروں میں آتش بازی کی فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا‘ انہوں نے ہنگامی خدمات کے کارکنوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ پالتو جانوروں اور جنگلی پرندوں پر پڑنے والے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہمیں نئے سال کی شام آتش بازی ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔