آج کے کالم کا آغازہم ایک ایسے قول سے کرتے ہیں کہ اگر اس پر صدق دل سے ہمارے معاشرے کا ہر فرد عمل درآمد کرنا شروع کر دے اور اسے اگر اپنی زندگیوں کا محور بنا دے تو نہ اس کی دنیاوی زندگی گل گلزار ہو جائے اس کی آخرت بھی سنور سکتی ہے‘ نہج البلاغہ حکمت اور دانش کی ایسی کتاب ہے کہ جس کا غور سے پڑھنا ہر مسلمان کے واسطے اشد ضروری ہے کہ یہ علم کا ایک بے بہا خزانہ ہے‘ نچلی سطور میں ہم اسلام کے چوتھے خلیفہ کا جو وہ خط رقم کرنے چلے ہیں کہ جسے اس ملک کے حکمرانوں کو جلی حروف میں لکھوا کر سرکاری حاکم کے دفتر کی میز کے پیچھے دیوار پر لٹکا دینا چاہیے اس خط کے مندرجات پر اگر ہمارے حکمرانوں کے تمام طبقے من و عن عمل درآمد شروع کر دیں تو یقین کریں ہمارا معاشرہ سنور جائے اور گڈ گورننس کے فقدان کا مسئلہ ختم ہو جائے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے امیر لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا اے ابن حنیف مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے تجھے کھانے پر بلایا ہے اور تم لپک کر گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ کھانے تمہارے لئے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہو نے کا یقین ہو اس میں سے کھا ‘تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقدی کا ایک پیشوا ہوتاہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نور علم سے کسب ضیا کرتا ہے دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادریں اور کھانے میں دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے میں مانتا ہوں کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیزگاری و سعی پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو بخدا میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا اور نہ ہی اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کےلئے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشات مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جب کہ حجازویمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی بھی نصیب نہ ہوتی ہواور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہواہو کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بد مزگی میں ان کے لئے نمونہ نہ بنوں میں اس لئے تو پیدا نہیں ہوا کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں تم میں سے اگر کوئی یہ کہے کہ جب ابن ابی طالب کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانی نے اسے حریفوں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا مگر یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور ترو تازہ پیڑوں کی پھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے۔
اس پر مغز اور نصیحت آ موز فرمان کے بعد چند تازہ ترین قومی اور عالمی امور کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا یہ خبر تکلیف دہ تو ضرور ہے کہ ہماری قومی ائر لائنز کہ جو ہمارا قومی اثاثہ ہے کو نجکاری کے عمل سے ایک غیر ملکی فرم کو 70 لاکھ ڈالرز کے عوض دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ پی آ ئی اے 850 ارب روپے کے خسارے میں ہے ‘ لگتا ہے کہ حکام کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا آ پشن تھا ہی نہیں۔ جوں جوں الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے بعض سیاست دان عوام سے ایسے ایسے وعدے کر رہے ہیں کہ کل کلاں قومی خزانے میں پیسے نہ ہوئے تو انہیں پورا نہ کرنے کی صورت میں وہ ان کے گلے پڑ سکتے ہیں ۔