کاغذات نامزدگی اور رشتہ داریاں 

 میڈیا کی رپورٹوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تقریباً تقریباً ہر پارٹی میں قد آور سیاسی شخصیات نے اپنے رشتہ داروں کو اسمبلیوں کے الیکشن لڑنے کے واسطے پارٹی کے ٹکٹ دلوا دئیے ہیں اور ایساکر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ موروثی سیاست کا ابھی تک اس ملک میں کچھ نہیں بگڑا الٹا اس کی جڑیں مزید گہری ہوتی جا رہی ہیں ہر پارٹی میں دیرینہ عام ورکر کل بھی خجل و خوار تھا اور آج بھی ہے کوئی مانے یا نہ مانے پر یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر اس ملک میں انٹرا پارٹی الیکشن کا کوئی جامع اور فو ل پروف نظام موجود ہے تو وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی میں ہی ہے ‘اگر ایسا نہ ہوتا تو قاضی حسین احمد اور مولانا سراج الحق جیسے لوگ کبھی بھی اس پارٹی کے امیر نہ بنتے اور اسمبلیوں کی نشستوں کے الیکشن کے لئے بھی پارٹی کی قد آور شخصیات کے قریبی رشتہ داروں کو ہی ٹکٹ ملتے عین ممکن ہے کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی اسی قسم کی صورت حال ہو کیونکہ اس ملک کا جو سیاسی کلچر ہے وہ ہر صوبے میں ایک ہی جیسا ہے بہرحال یہ ایک افسوسناک امر ہے کہنے کو تو ہمارے سارے سیاستدان پارلیمانی جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں پر عملا ًوہ اس کے برعکس ہیں‘وطن عزیز میں پارلیمانی نظام کو بادشاہت کی طرح چلایا جا رہا ہے‘ اپنے سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی رہائش گاہیں تو ذرا دیکھیں وہ بادشاہوں کے محلات سے کم نہیں ہیں انکا رہن سہن اور بودوباش شہزادوں جیسی ہے جس طرح بادشاہ اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیا کرتے تھے بالکل اسی طرح ہماری اکثر سیاسی جماعتوں کے لیڈر انٹرا پارٹی الیکشن کا ڈھونگ رچا کر اپنے بعد اپنی پارٹی کے کلیدی عہدے پر ورثاء کو منتخب کرا لیتے ہیں تاکہ مستقبل میںان کی جگہ ان کے یہی ورثاءسنبھال سکیںاگر یہی صورت حال جاری رہی تو پارلیمانی جمہوری نظام ڈلیور نہیں کر پائے گا اور اگر ایسا ہوا تو یہ نظام عوام کی آنکھوں میں بے وقعت ہو جائے گا اور وہ اس کے متبادل کسی اور نظام کو اپنانے کی طرف راغب ہو سکتے ہیں کچھ عرصے سے ملک میں یہ سوچ بھی جنم لے رہی ہے کہ کیوں ناں وطن عزیز میں صدارتی نظام حکومت کو نافذ کیا جائے کیونکہ پارلیمانی نظام نے تو عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا ہے ہماری اشرافیہ نے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو قابل رشک ہو‘ کئی لوگوں کو ہم نے تو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اگر ایوب خان صدارتی انتخاب کے واسطے بنیادی جمہوریت کے نمازندوں کو بطور الیکٹورل کالج استعمال کرنے کے بجائے برائے راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن کروا دیتے تو صدارتی نظام سے۔ بہتر اس ملک کےلئے کوئی دوسرا نظام ہوہی نہیں سکتا تھا ‘بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں ۔اب آتے ہیں ‘ چند عالمی اور قومی امور پر ایک ہلکے سے تبصرے کی طرف ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں جو معاشی ماڈل چلایا جا رہا ہے وہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے غربت سر اٹھا رہی ہے ٹیکس نیٹ زیادہ کرنے کے واسطے اثاثوں پراپرٹی اور زراعت پر ٹیکس لاگو کرنا ہوگا ان لوگوں پر ان کی آمدنی کے مطابق ٹیکس نہیں لگایا جا رہا کہ جن کی اولاد ان تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہے کہ جن کی فیس ڈالروں میں ادا کی جاتی ہے جو سیر سپاٹے کےلئے ہر سال یورپ اور امریکہ جاتے ہیں اور بال بچوں کی شادی کا سامان خریدنے عرب امارات کی طرف ‘ جن کے بنگلوں میں کروڑوں روپے مالیت کی ایک سے زیادہ لگژری گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں ‘ان کے تمام اخراجات ڈاکومنٹیڈ documentedہیں یہ فوراً قانون کی زد میں آ سکتے ہیں‘ عوام کی سادہ لوحی کا عالم دیکھئے کہ وہ الیکشن کے وقت ان کے لگائے ہوئے دلفریب نعروں کے سراب میں آ کر ان کو بار بار اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں ۔بجلی کی چوری کو روکنا ہو گا اور ان اداروں کی فوری نجکاری کرناہو گی جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور سفید ہاتھی کے مترادف ہیں۔ 

لہٰذا ضروری ہوگا کہ جو سیاسی پارٹی الیکشن جیت کر آئے وہ انضمام کے فیصلے کو ری وزٹ کرے اور اس میں جو سقم پایا جائے اسے رفع کیا جائے بہتر تو یہ ہو گا کہ اس کام میں تمام قبائل کے سفید ریش عمائدین کے ساتھ گورنر خیبر پختونخوا ذاتی طور ایک لویہ جرگہ منعقد کریں جس میں ان سابقہ سینئر سول سرونٹس کو بھی شامل کیا جائے کہ جو قبائلی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں اور جنہوں نے سابقہ فاٹا میں سروس بھی کی ہو۔