جب بھی پشاور کی تاریخ کا ذکر ہوگا تو وہ اس وقت تک نامکمل تصور کیا جائےگا کہ جب تک پشاور کے سیٹھی خاندان کا اس میں ذکر نہ ہوگا جب تک روس میں 1917ءکا کمیونسٹ انقلاب نہیں آیا تھا پشاور کا اگر کوئی تجارتی طبقہ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت میں سر فہرست تھا تو وہ پشاور کا سیھٹی خاندان ہی تھا اس دور میں سیٹھی کریم بخش کا بطور تاجر طوطی بولتا تھا وہ صرف ایک متمول تاجر ہی نہ تھے بلکہ پشاور اور اس کے گرد و نواح میں کئی رفاع عامہ اور مذہبی کاموں جیسے پلوں اور مساجد کی تعمیر میں بھی دل کھول کر مالی معاونت کرتے تھے حتیٰ کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے بولٹن بلاک کی تعمیر میں بھی انہوں نے معاونت کی ‘ان کے ذکر کے ساتھ ساتھ اگر سیٹھی خاندان کی ایک اور شخصیت کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی جو لوگ آج اسی کی عمر کے پیٹے میں ہیں وہ سیٹھی عبدالغفور کے نام سے ضرور با خبر ہوں گے وہ ایک مبلغ اسلام تھے ان کا روزانہ کا یہ معمول تھا کہ وہ پشاور اور اس کے گرد ونواح کے ہر سکول اور کالج کے کسی بھی کلاس روم میں داخل ہو جاتے اور وہاں پر موجود طلباءکو دو باتیں کرتے کہ عربی سیکھو اور سائنس پڑھو کالج اور سکول کے اساتذہ احتراماً اس وقت ایک آدھ منٹ کیلئے اپنا جاری لیکچر معطل کر دیتے کہ جس دوران سیٹھی صاحب طلبا سے مخاطب ہوتے ان کا دوسرا روزانہ کا معمول یہ تھا کہ وہ ظہر کی نماز کے وقت قصہ خوانی بازار میں لاہوری حلوائی کی دکان کے عقب میں واقع مسجد کے گیٹ کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور ہر راہ گیر سے درخواست کرتے کہ وہ نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہو جائے‘سیٹھی صاحب ایک سچے عاشق رسول تھے ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آج کی دنیا کے چند اہم مسائل کا تذکرہ پیش خدمت ہے سوشل میڈیا پر ہیجان اور مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کر کے جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں پر حیرانگی اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا پر سنسر شپ لگانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جا رہا‘ مولانا فضل الرحمان کے اس بیان میں کافی وزن ہے کہ ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہونے میں سیاست دانوں کی اپنی سیاسی مصلحتیں ہیں اور یہ کہ الیکشن سے زیادہ اچھی امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ نیو گوادر ائر پورٹ اگست میں پروازوں کےلئے کھلے گا اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی نیا ائر پورٹ بنے گا جہاں تک ڈی اہی خان کے ائر پورٹ کا تعلق ہے آج سے کئی برس پہلے سے یہ عوامی مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ چونکہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع سے مشرق وسطیٰ کے کئی علاقوں کو ایک بڑی ورک فورس آ تی جاتی رہتی ہے لہٰذا ڈیرہ اسماعیل خان کے موجودہ ائر پورٹ کے رن وے کو کشادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے جہاز اس پر بہ آسانی لینڈ اور ٹیک آف کر سکیں‘ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک سروے بھی کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ موجودہ رن وے کے ساتھ ایک بڑا قطعہ اراضی دستیاب ہے کہ جس کو موجودہ رن وے کے ساتھ ملا کر اسے کشادہ اور لمبا کیا جا سکتا ہے‘ پر اس کے بعد متعلقہ اداروں کو جیسے اس مطالبے پر عملدرآمد کرنے میں سانپ سونگھ گیا ہو ڈی آئی خان کے موجودہ ائر پورٹ کے رن وے کو ہی اگر کشادہ اور لمبا کر دیا جائے اور ائر پورٹ کے اندر وہ تمام لوازمات فراہم کر دی جائیں کہ جو انٹرنیشنل ائرپورٹ میں میسر ہوتے ہیں تو تمام انٹرنیشنل ائر لائنز کے طیارے ڈی آئی خان براہ راست آنا جانا شروع کر دیں گے جس سے اگر ایک طرف مقامی باشندوں کو ملک کے اندر اور باہر جانے میں آ سانی ہوگی تو دوسری جانب مقامی آبادی کو روزگار کے کئی مواقع میسر آجائیں گے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ