حقوقِ العباد سے لاتعلقی 

جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے ہم من حیث القوم اس ضمن میں بہت سست ثابت ہوئے ہیں ملک میں دھڑا دھڑ نت نئے محل نما بنگلے تو بن رہے ہیں اور ہر بنگلے کے پورچ میں آپ کو ایک سے زیادہ کروڑوں کی مالیت کی لگژری گاڑیاں بھی نظر آئیںگی ‘ظاہرہے ان کے مالکان کے پاس اتنا وافر فالتو پیسہ ہے جو وہ اتنے کروفر کی زندگیاں بسر کر رہے ہیں ‘پر کیا ان کے ضمیر نے کبھی ان سے یہ بھی پوچھا ہے کہ ان کی بستی ان کے شہر‘ ان کے پاس پڑوس میں ہزاروں افراد ایسے بھی ہیں کہ جو بھوکے پیٹ سو رہے ہیں یا کسی موذی مرض میں مبتلا افراد درد سے چیخ رہے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیس کے پیسے موجود ہیں اور نہ دوا کےلئے پیسے ہیں‘ کوئی بھی تو ان امیروں سے نہیں پوچھ رہا کہ بھائی تمہارے پاس آخر کونسی گیدڑ سنگھی ہے جو تم اربوں میں کھیل رہے ہو‘یہاں اس بات سےبھی اختلاف ممکن نہیں کہ تمام سرمایہ دار ایک جیسے بھی نہیں ہوتے ان میں ایسے خدا ترس بھی ہیں جو حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا پورا ادراک رکھتے ہیں‘یہ قروری نہیں کہ سرمایہ داروں کی دولت غیر قانونی ذرائع سے آئی ہو ‘ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے حق حلال سے دولت کمائی ہے‘البتہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دولت میں واقعی بڑی طاقت ہے اگر یہ بات سچ نہ ہوتی تو نا جائز طریقوں سے دھن کمانے والے سزاسے بھلا کیسے بچ سکتے ۔مالی کرپشن کا خاتمہ مجرموں کو سر عام سنگین ترین سزا دئیے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔چین نے اگر آج کرپشن پر قابو پایا ہے تو محض اس وجہ سے کہ جب وہاں کرپٹ افراد کے خلاف سخت کاروائی ہوتی ہے تو اس سے دوسرے راشی افراد عبرت پکڑتے ہیں اس تناظر میں اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ جتنا جلد ی ہوش کے ناخن لے اتنا ہی اس کے واسطے بہتر ہوگا کیونکہ اس ملک کا عام آدمی سیاسی طور پر آج کافی بیدار نظر آ رہا ہے وہ اب سرمایہ دار کے ہاتھوں مفلوک الحال لوگوں کا معاشی استحصال کسی طور برداشت نہیں کرے گا وہ اب یہ سوال کرنے لگا ہے کہ جب انسان اس دنیا میں برہنہ صورت آتا ہے اور کم وبیش اسی صورت دنیا سے جاتا بھی ہے تو ایسا کیوں ہے کہ زمین کے اوپر چند روز کے قیام کے دوران کوئی تو کمخواب پہنے اور کسی کو پھٹے پرانے کپڑے تک نصیب نہ ہوں‘سرمایہ داری کے خلاف غریب عوام کے دلوں میں لاوا پک رہا ہے کوئی دن جاتاہے کہ یہ پھٹے گا اور جس دن یہ پھٹا یہ سرمایہ دارانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔بقہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے فیصلے پر یوں تو اس علاقے کی روایات اور تاریخ سے شد بد رکھنے والوں کے روزاول سے ہی کافی تحفظات تھے لہٰذا ضروری ہوگا کہ جو سیاسی پارٹی الیکشن جیت کر آئے وہ انضمام کے فیصلے کو ری وزٹ کرے اور اس میں جو سقم پایا جائے اسے رفع کیا جائے بہتر تو یہ ہو گا کہ اس کام میں تمام قبائل کے سفید ریش عمائدین کے ساتھ گورنر خیبر پختونخوا ذاتی طور ایک لویہ جرگہ منعقد کریں جس میں ان سابقہ سینئر سول سرونٹس کو بھی شامل کیا جائے کہ جو قبائلی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہوں اور جنہوں نے سابقہ فاٹا میں سروس بھی کی ہو۔